اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اکتوبر 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازع میں ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور دعویٰ کیا کہ وہ اس تنازع کا خاتمہ کرسکتے ہیں، جیسے انہوں نے ماضی میں کئی دیگر جنگوں کو ''حل‘‘ کیا ہے۔
مصر
میں غزہ امن سربراہی اجلاس کے لیے جاتے ہوئے ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی ''آٹھویں جنگ ہو گی جو انہوں نے حل کی ہے۔‘‘انہوں نے کہا، ''میں نے سنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، مجھے واپس آنے دو۔ میں ایک اور جنگ ختم کر رہا ہوں۔ کیونکہ میں جنگوں کو ختم کرنے میں ماہر ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دور صدارت میں ''دہائیوں پر محیط تنازعات نسبتاً جلد ختم ہوئے۔
(جاری ہے)
‘‘
ٹرمپ
نے اس حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی میں لڑائی کو رکوانے کا دعویٰ ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا، ''سوچو بھارت، پاکستان کے بارے میں۔ سوچو ان جنگوں کے بارے میں جو برسوں سے جاری تھیں… ایک 31 سال، ایک 32 سال، ایک 37 سال سے جاری تھی، اور ہر ملک میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ میں نے ان میں سے ہر ایک کو، زیادہ تر، ایک دن کے اندر ختم کیا۔ یہ کافی اچھا ہے۔‘‘ایران کی طرف سے ثالثی کی پیشکش
ایران
نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام بحال کیا جا سکے۔اتوار کو جاری بیان میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان حالیہ واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے دونوں ممالک کی علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کے احترام پر زور دیا۔
بقائی نے دونوں فریقوں سے ''تحمل اور فوری مذاکرات کے آغاز‘‘ کی اپیل کی تاکہ کشیدگی کم ہو اور اختلافات کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ''اسلامی جمہوریہ ایران اپنے گردونواح میں امن و استحکام کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے‘‘ اور تہران کی جانب سے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ دونوں مسلم ہمسایہ ممالک کے درمیان دشمنی کم کرنے کی ہر کوشش میں تعاون کے لیے تیار ہے۔
بقائی نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام ضروری ہے۔
سعودی عرب اور قطر کی تحمل سے کام لینے کی اپیل
سعودی عرب
اور قطر نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپوں کے بعد، جن میں دونوں جانب درجنوں فوجی ہلاک ہوئے، قیام امن کے لیے کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔سعودی
عرب، جس نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا ہے، نے ان جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ ریاض کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، ''مملکت تحمل سے کام لینے، کشیدگی سے گریز اور مکالمے و دانائی کو اپنانے کی اپیل کرتی ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام برقرار رکھا جا سکے۔‘‘بیان میں مزید کہا گیا، ''مملکت ان تمام علاقائی و بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتی ہے جو امن و استحکام کے فروغ کے لیے کی جا رہی ہیں، اور اپنے برادر پاکستانی و افغانی عوام کے امن، سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔
‘‘أفغانستان کا بیان
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان افواج نے قطر اور سعودی عرب کی اپیل کے بعد اپنی کارروائیاں روک دی ہیں۔
یہ سرحدی جھڑپیں 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ہونے والی سب سے خونریز جھڑپوں میں سے ایک قرار دی جا رہی ہیں۔
کشیدگی اس وقت بڑھی جب کابل نے الزام لگایا کہ پاکستان نے افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکتیکا صوبے کے ایک بازار پر بمباری کی۔
اسلام آباد
نے نہ تو اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور نہ تردید، تاہم کہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ''تمام ضروری اقدامات‘‘ کرے گا، کیونکہ ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان
کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں اور کابل ان کی روک تھام میں ناکام رہا ہے۔افغانستان
نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ادارت: صلاح الدین زین