اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پالیسی ریٹ 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ، ٹیکس محاصل میں ممکنہ کمی، شعبہ توانائی کے گردشی قرضوں کے پھر سر ابھارنے اور مقررہ بیرونی رقوم کی آمد میں تاخیر سے مالیاتی نظا م کو خطرات لاحق ہیں ،سٹیٹ بنک

ہفتہ 18 جنوری 2014 03:33

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جنوری۔2014ء)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹیکس محاصل میں ممکنہ کمی، شعبہ توانائی کے گردشی قرضوں کے پھر سر ابھارنے اور مقررہ بیرونی رقوم کی آمد میں تاخیر سے مالیاتی نظا م کو خطرات لاحق ہیں جبکہ م س 14ء کی پہلی ششماہی کی دونوں سہ ماہیوں میں اسٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری (borrowing) کا سہ ماہی بہاؤ مثبت رہا ہے اور یہ طرز عمل زری پالیسی کی اثر انگیزی کے لیے اچھا شگون نہیں۔

اس قسم کے انحرافات بینکاری نظام سے قرض کو بڑھانے، ملکی قرضے میں مزید اضافے اور بلند تر مہنگائی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ گورنر یاسین انور کی زیر صدارت جمعہ کو اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کااجلاس ہوا۔

(جاری ہے)

جس کے بعد گورنر ااسٹیٹ بینک نے پریس کانفرنس میں ”زری پالیسی بیان“ جاری کیا ۔زری پالیسی بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک نے ستمبر اور نومبر 2013ء میں کیے گئے اپنے دو اعلانات میں پالیسی ریٹ میں 50، 50 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کا اضافہ کیا جس کی وجہ دو تشویشناک امور تھے: ایک معاملہ توازن ادائیگی کی صورتِ حال میں مسلسل بگاڑ کا تھا اور دوسرا گرانی کے امکانات کا بدتر ہونا۔

بیان میں کہا گیا کہ توازن ادائیگی کی صورتِ حال میں بنیادی کمزوری م س 08ء سے اب تک خالص آمد رقوم (inflows) میں مسلسل سکڑاؤ ہے۔ گذشتہ ڈھائی برسوں کے دوران آئی ایم ایف کو قرضوں کی خاصی واپسی سے یہ دباؤ بڑھا ہی ہے۔ بیان کے مطابق اطمینان سے بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں اور بیرونی کھاتوں کی صورتِ حال میں پائیدار بہتری کے لیے خاصی کاوش درکار ہے۔

زری پالیسی بیان میں کہا گیا کہ مالی سال 14ء کی پہلی ششماہی کے دوران گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) بڑھی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ طلب سے ابھرنے والی گرانی کا خطرہ ابھی تک معتدل ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اجناس کی بین الاقوامی قیمتیں بھی م س 14ء کے آغاز سے مستحکم رہی ہیں یا کم ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت پر شرح مبادلہ کی تغیر پذیری کے براہ راست اثر کی کسی حد تک تلافی ہوئی ہے۔

ان عوامل کو پیش نظر رکھ کر اسٹیٹ بینک نے گرانی کے اپنے تخمینوں کو نظر ثانی کے بعد کم کر لیا ہے۔زری پالیسی بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک نے بچت امانتوں میں رکھے گئے اوسط بیلنس پر کم از کم شرح منافع کو شرح سود کوریڈور کے فلور سے منسلک کر دیا تھا۔ اس پالیسی اقدام سے یہ امر یقینی ہوگیا کہ امانتوں کی شرحیں پالیسی ریٹ میں تبدیلیوں پر زیادہ ردِعمل ظاہر کریں۔

بیان میں کہا گیا کہ م س 14ء کی پہلی ششماہی کی دونوں سہ ماہیوں میں اسٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری (borrowing) کا سہ ماہی بہاؤ مثبت رہا ہے۔ یہ زری پالیسی کی اثر انگیزی کے لیے اچھا شگون نہیں۔ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ م س 14ء کی دوسری ششماہی میں نئے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے مطابق حکومت یہ قرض گیریاں کم کرے گی اور واجب الادا اسٹاک بتدریج گھٹائے گی۔

زری پالیسی بیان کے مطابق مالیاتی کیفیت کو خطرہ ٹیکس محاصل میں ممکنہ کمی، شعبہ توانائی کے گردشی قرضوں کے پھر سر ابھارنے اور مقررہ بیرونی رقوم کی آمد میں تاخیر سے ہے۔ اس قسم کے انحرافات بینکاری نظام سے قرض کو بڑھانے، ملکی قرضے میں مزید اضافے اور بلند تر مہنگائی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔اگرچہ متوقع بیرونی رقوم کی آمد سے متعلق غیریقینی کیفیت کے باعث توازن ادائیگی کی صورتِ حال کو بعض خطرات لاحق ہیں تاہم گرانی میں متوقع اضافہ اس سطح سے کسی قدر زیادہ ہے جتنا قبل ازیں توقع کی گئی تھی۔ چنانچہ مذکورہ بالا امور کی روشنی میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پالیسی ریٹ کو تبدیل نہ کرنے اور 10 فیصد پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔