حالات کی بہتری کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حکومتی نعروں اور دعووٴں کا جنازہ خود اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے نکال دیا،گوادر میں منعقدہ ماہی گیر کنونشن میں صوبائی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو وزیراعلیٰ کے خصوصی طیارے میں لے جایا گیا لیکن مشیر برائے ماہی گیری کو نظر انداز کردیا گیا

بدھ 5 فروری 2014 04:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5فروری۔2014ء) گڈ گورننس ،کرپشن کے خاتمہ،میرٹ ،حالات کی بہتری کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حکومتی نعروں اور دعووٴں کا جنازہ خود اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے نکال دیاگوادر میں منعقدہ ماہی گیر کنونشن صوبائی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو وزیراعلیٰ کے خصوصی طیارے میں گوادر لے جایا گیا لیکن مشیر برائے ماہی گیری کو نظر انداز کردیا گیا صوبائی وزراء و مشیر اپنی بے اختیاری پر سراپا احتجاج ہونے لگے کہیں الٹی گنتی تو شروع ہونے والی نہیں سنجیدہ سیاسی حلقوں کو تشویش لاحق ہوگئی گزشتہ روز گوادر میں ہونے والے ماہی گیر کنونشن میں شرکت کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبائی وزیر پالاننگ ایڈ ڈیلپمنٹ ڈاکٹر حامد خان اچکزئی کو خصوصی طیارے میں گوادر لے جایا گا۔

(جاری ہے)

ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے مشیر برائے ماہی گیری حاجی اکبر آسکانی سے نہ تو کسی قسم کی مشاورت کی گئی اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں میں سے خود نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے مشیر و وزیر زیادہ پریشان ہیں جنہیں یہ شکایت ہے کہ انہیں عہدے تو دیئے گئے لیکن اختیارات ان کے سپرد نہیں کئے گئے گزشتہ دنوں میاں نواز شریف کی کوئٹہ آمد اور امان و امان سے متعلق اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اپنی عدم شرکت پر اسمبلی فلور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں بلکہ مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے تو یہاں تک ھمکی دی ہے کہ اگر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے رویہ تبدیل کرکے اختیارات نہ دیئے تو صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کی واپسی پر آزاد بینچوں پر بیٹھیں گے وزیراعلیٰ کو معلوم ہوناچاہئے کہ وہ وزراء کی وجہ سے وزیراعلیٰ ہیں اگر ان کی عزت نہیں ہوگی تو پھر معاملات کیسے چلیں گے پارلیمانی لیڈر کے آنے کے بعد دوٹوک الفاظ میں بات کریں گے کہ ہمیں اختیارات دیئے جائیں اور ہماری عزت کا خیال رکھاجائے بصورت دیگر ہم آزاد نشستوں پر بیٹھنے سے گریز نہیں کریں گے“ جبکہ ادھر خود نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے سیکرٹری صحت کے رویئے کے خلاف دفتر میں بیٹھنا ترک کردیا ہے اور دفتر پر تالے پڑے ہیں صوبائی وزیر صحت کا موقف ہے کہ سیکرٹری صحت ان کے احکامات پر عمل نہیں کرتے ہیں اور حکومت کی ہیلتھ پالیسی کے حوالے سے پروگرامز میں رکاوٹ بن رہے ہیں اس لیئے خالی کمرے میں بیٹھنے میں کوئی فائدہ نہیں حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزراء و مشیروں کو یہ شکایت ہیں کہ انہیں اختیار کیوں نہیں دیا جاتا ہے ایک کاغذی کابینہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے اگر تمام معاملات بیوروکریسی نے ہی چلانے ہیں تو کابینہ کا بوجھ صرف بوجھ کی حد تک کیوں اٹھایا جا رہا ہے وزیر کی طرح کب آئین کے تحت عزت اور اختیار ملے گا بیورو کریسی کے حوالے سے وزراء کی شکایات اس حد تک پہنچیں کہ انہوں نے چیف سیکرٹری بلوچستان کیلئے ”وائسرائے “ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اصل حکمرانی چیف سیکرٹری کررہے ہیں اختیارات کا منبع ”وائسرائے“ ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان تو کسی کی تقرری و تبادلہ تک کا اختیار نہیں رکھتے البتہ چیف سیکرٹری جو چاہتے ہیں وہی ہوتاہے سنجیدہ سیاسی حلقے اس صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو الٹی گنتی شروع ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔