افغان صدر حامد کرزئی کے طالبان سے خفیہ رابطے،مغربی اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا،امریکا سے فاصلے بڑھ گئے

بدھ 5 فروری 2014 04:40

کابل(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5فروری۔2014ء)افغان صدر حامد کرزئی نے حالیہ مہینوں کے دوران طالبان مزاحمت کاروں سے کسی ممکنہ امن معاہدے کے لیے رابطے کیے ہیں اور انھوں نے اس عمل میں اپنے امریکی اور مغربی اتحادیوں کو اعتماد میں لیا ہے اور نہ شریک کیا ہے۔العربیہ ٹی وی کے مطابق افغان صدر حالیہ ہفتوں کے دوران امریکا کے ساتھ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ امریکا کے زیرحراست طالبان لیڈروں کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بعض امریکی اور افغان عہدے داروں کے حوالے سے اپنی منگل کی اشاعت میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ صدر حامد کرزئی کے طالبان مزاحمت کاروں سے خفیہ رابطوں سے امریکا نالاں ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر نے امریکا کے جنگی جرائم سے متعلق حال ہی میں بعض مسخ شدہ شواہد تقسیم کیے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے طالبان کے ساتھ خفیہ روابط کوئی زیادہ ثمر بار ثابت نہیں ہوئے۔

(جاری ہے)

البتہ ان سے یہ ضرور ہوا ہے کہ حامد کرزئی اور امریکا کے درمیان رہا سہا اعتبار بھی جاتا رہا ہے اور ان کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی ہے۔افغان صدر کے ترجمان ایمل فیضی نے طالبان کے ساتھ ان خفیہ روابط کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روابط جاری ہیں۔اس ضمن میں گذشتہ دوماہ بہت مثبت رہے ہیں۔انھوں نے افغانستان میں اکتوبر 2001ء میں جنگ کے آغاز کے بعد سے ان روابط کو سب سے سنجیدہ قراردیا ہے۔

ان کے بہ قول فریقین کی امریکا کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے سے متعلق صدر کے موقف اور اس کے بعد ان کی تقریروں سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔افغان اور مغربی عہدے داروں کا اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اعلیٰ افغان عہدے داروں نے حالیہ ہفتوں کے دوران بااثر طالبان لیڈروں کے ساتھ دبئی ،متحدہ عرب امارات اور ریاض (سعودی دارالحکومت) میں ملاقاتیں کی ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا افغان حکومت جن طالبان لیڈروں سے بات چیت کررہی ہے،ان کے طالبان کے امیر ملا محمد عمر کے ساتھ بھی قریبی روابط ہیں یا نہیں کیونکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کسی بھی امن معاہدے کے لیے ان کی رضامندی ضروری ہوگی۔

افغان صدر کی جانب سے امریکا کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط سے مسلسل انکار کی وجہ سے صدر براک اوباما مایوس ہوچکے ہیں اور انھوں نے آج منگل کو اپنے اعلیٰ فوجی کمانڈر کو وائٹ ہاوٴس میں طلب کیا ہے تا کہ ان سے افغانستان میں امریکی مشن کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کرسکیں۔افغان اور مغربی عہدے داروں نے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے نومبر2013ء میں افغان حکومت کے ساتھ روابط کا آغاز کیا تھا اور اس وقت حامد کرزئی اور امریکا کے درمیان عدم اعتماد عروج پر تھا۔

تاہم ان روابط کے نتیجے میں اب تک امن معاہدے کے لیے کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ طالبان فی الواقع افغانستان میں قیام امن میں سنجیدہ ہیں یا وہ صدر حامد کرزئی کو امریکا کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط سے روکنے کے لیے خفیہ مذاکرات کا یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان کے لویہ جرگے نے اکتوبر میں امریکا کے ساتھ مجوزہ سکیورٹی معاہدے کی منظوری دی تھی۔اس کے تحت 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی کچھ تعداد تعینات رہے گی۔امریکا کی قیادت میں غیر ملکی فوجوں سے مزاحمتی جنگ لڑنے والے طالبان اس معاہدے کو مسترد کرچکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :