پشاورہائیکورٹ کا سوموٹو نوٹس بھی افغان جوڑے کی زندگی کی ضمانت نہ دے سکا،یہ جوڑاجان بچانے کیلئے سرکاری شیلٹر ہاؤس چھوڑکر ایک سال 9 ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنی نومولود بچی کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور

اتوار 18 مئی 2014 07:37

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18مئی۔2014ء) پشاورہائیکورٹ کا سوموٹو نوٹس بھی افغان جوڑے کی زندگی کی ضمانت نہ دے سکا۔یہ جوڑاجان بچانے کیلئے سرکاری شیلٹر ہاؤس چھوڑکر ایک سال 9 ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنی نومولود بچی کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔پڑوسی ملک افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آنیوالے افغان جوڑے کو قتل کی دھمکیاں ملنے پر پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس دوست محمد خان نے جولائی 2012 میں سوموٹو نوٹس لیا تھا ، افغان جوڑے نے ایبٹ آباد میں پناہ حاصل کی اور وہیں نکاح کیا تاہم رشتے داروں کے پہنچ کر انھیں اغوا اور قتل کی کوشش کی جو پولیس نے ناکام بنادی تھی۔

پشاور ہائیکورٹ نے میڈیا رپورٹ کی روشنی میں سوموٹو نوٹس پر کارروائی شروع ہوتے ہوئے دونوں فریقین کو عدالت طلب کیا تھا۔

(جاری ہے)

افغان جوڑے مریم اور ھیواد پرگھر والوں نے الزام لگایا کہ مسماةمریم پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے 2 بچے بھی ہیں تاہم جوڑے نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا جس پر جسٹس دوست محمد خان نے افغان جوڑے کو زندگی کے بنیادی حق کے تحفظ کی خاطر پشاور ویمن شیلٹر ہاؤس میں جگہ دینے اور تمام بنیادی سہولیات ، سیکیورٹی دینے اور ماتحت عدلیہ کوکیس 3ماہ میں نمٹانے کے احکامات جاری کردیے تھے۔

ماتحت عدلیہ نے کیس پرکارروائی شروع کرتے ہوئے افغان خاتون کے ڈی این اے ٹیسٹ سمیت دیگر تحقیقات مکمل کیں اورکیس پر فیصلہ افغان جوڑے کے حق میں دیا جس پر ایک بار پھر فریقین نے عدالتی فیصلے کو ماننے سے انکارکرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اپیل خارج کردی گئی۔ دوران ٹرائل ہی افغان جوڑے کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی تو دوسری جانب جوڑے کے گھر والوں کی جانب سے انہیں مارنے کی دھمکیوں میں تیزی آنے لگی اور انھیں واپس افغانستان لے جانے کی کوششوں کے باعث افغان جوڑے نے سرکاری شیلٹر ہاؤس تو چھوڑ دیا لیکن ایک سال 9ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ صوبے کے مختلف علاقوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ وہ اپنی آئندہ زندگی سکھ کے ساتھ گزار سکیں۔