لکسمبرگ کے سابق وزیراعظم یْنکر یورپی یونین کے نئے صدر منتخب،یورپی پارلیمان میں 751 اراکین میں سے 422 نے ان کے حق میں ووٹ دئیے

بدھ 16 جولائی 2014 07:54

برسلز (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16جولائی۔2014ء)لکسمبرگ کے سابق وزیراعظم ژاں کلاوٴد یْنکر کو یورپی کمیشن کا نیا صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ انہیں برسلز سسٹم کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یْنکر یورپی یونین میں تبدیلیاں لانے کے خواہاں ہیں، میڈیارپورٹس کے مطابق یورپی پارلیمان میں نئے صدر کے انتخاب کیلئے رائے شماری کے دوران 751 اراکین میں سے 422 نے ان کے حق میں ووٹ دئیے۔

انہیں صدر بننے کے لیے 376 ووٹ درکار تھے۔ رپورٹ کے مطابق کلاوٴد یْنکر سے بہتر یورپی پالیسیوں کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ وہ تقریبا بیس برس تک لکسمبرگ کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور یورپی یونین کے ان گنت اجلاسوں میں شرکت کر چکے ہیں۔ یْنکر ایک ایسے وقت میں آٹھ برس تک یورو گروپ کے صدر رہ چکے ہیں، جب نہ صرف مشترکہ یورو کرنسی بلکہ مجموعی یورپی یونین کو بحران کا سامنا تھا اور اس وقت سے ینکر کو مسٹر یورو بھی کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ خود بھی آج وثوق سے کہتے ہیں، ”یورو اور یورپی یونین خطرے میں تھی۔ میں نے اپنی محدود صلاحیت میں تباہی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کام کیا۔“یہ ہو سکتا ہے کہ بحران ختم ہو چکا ہو لیکن اس کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں۔ یْنکر کے نظر میں اس وقت یورپ کا سب سے اہم مسئلہ بے روزگاری ہے اور وہ بھی خاص طور پر نوجوانوں میں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت یورپ کا سب سے اہم کام ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے، جن کے ایک گْمشدہ نسل بننے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

یْنکر کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے بہت سے منصوبے غیر واضح ہیں۔ صدارتی عہدے کے لیے یْنکر کے سب سے بڑے حریف سوشلسٹ امیدوار مارٹن شولز تھے اور وہ واضح طور پر بائیں بازو کے سیاستدان ہیں۔ لیکن جو یورپی یونین کا صدر بننا چاہتا ہے، اسے ایک خاص حد تک سارے یورپ کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ یْنکر اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”ہمیں یورپ میں نئی دیواروں اور تقسیم کی نئی لائنوں کی تخلیق سے احتراز کرنا ہوگا۔

میں شمالی اور جنوبی، بڑے اور چھوٹے، مضبوط اور کمزور میں تقسیم کا سخت مخالف ہوں۔ میں یورپ میں اتفاق رائے اور رابطوں کی تعمیر چاہتا ہوں۔“یْنکر یہ بھی جانتے ہیں کہ یورپی یونین کے عوام ضرورت سے زیادہ قوانین کو اچھا نہیں سمجھتے ان کا کہنا تھا، ”عوام برسلز کے غلط جگہوں کے لیے بنائے قوانین سے تنگ آ چکے ہیں، مثال کے طور پر بلبوں پر پابندی اور ناشپاتی پر نمبر لگانے وغیرہ سے۔

یورپ کی چھوٹی سطح پر مداخلت، بڑی سطح پر یورپ کے لیے نقصان دہ ہے۔“بلا شبہ یْنکر میں وہ بہت کچھ ہے، جس کی ایک کمیشن کے صدر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ تجربہ کار ہیں، بہت سی زبانیں بول سکتے ہیں، سیاسی اعتدال پسند ہیں اور مختلف حکومتوں کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی بہت سی کمزوریاں بھی ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ تھکے ہوئے نظر آئے اور ان کو جانا بھی یورپی یونین کے صرف اندرونی حلقے میں جاتا ہے۔

انہیں برسلز سسٹم کے بہت بڑے حامی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، ایک ایسا یورپی سسٹم، جس کی مخالف جماعتیں پہلی مرتبہ اتنی بری تعداد میں کامیاب ہو کر یورپی پارلیمان میں پہنچی ہیں۔ اگر یْنکر واقعی کامیاب صدر بننا چاہتے ہیں تو انہیں یورپ کی بہت سے رکن ریاستوں میں مضبوط مزاحمت کے خلاف لڑنا ہوگا۔

متعلقہ عنوان :