پاکستان بیورو آ ف شماریات کی امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ملک بھر میں مردم شماری کرانے سے معذرت ،پورے ملک میں ایک ہی وقت میں مردم شماری کرانا ناممکن ہے، فاٹا اور بلوچستان میں سرکاری ملازمین کا داخلہ ممنوع ہے ، شمالی وزیرستان میں آپر یشن کے باعث مردم شماری ممکن نہیں ہے، چیف شماریات ، اپوزیشن اراکین کا وفاقی حکومت کی طرف سے شروع کردہ ترقیاتی منصوبوں پر تحفظات کا اظہار

بدھ 23 جولائی 2014 07:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جولائی۔2014ء)پاکستان بیورو آ ف شماریات نے امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ملک بھر میں مردم شماری کرانے سے معذرت کرلی، چیف شماریات کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی وقت میں مردم شماری کرانا ناممکن ہے، فاٹا اور بلوچستان میں سرکاری ملازمین کا داخلہ ممنوع ہے اور شمالی وزیرستان میں آپر یشن کے باعث مردم شماری ممکن نہیں ہے،جبکہ اپوزیشن اراکین نے وفاقی حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت عوام کے ٹیکسوں سے جمع کئے گئے پیسے سے ناقابل عمل منصوبے شروع کر رہی ہے۔

پیر کویہا ں عبدالمجیدخان خانان خیل کی زیرصدارت ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی واصلاحات کو چیف شماریات آ صف باجوہ نے بتایا گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں مردم شماری کرانے کی کوشش کررہے ہیں مگر کبھی سیاسی رکاوٹیں آگے نہیں بڑھنے دیتیں اور کبھی انتظامی مسائل درپیش آجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے جس میں مردم شماری کرانا ناممکن ہے۔

شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے باعث مردم شماری نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ایک ہی وقت میں مردم شماری کرانا ضروری ہے جو فی الوقت ممکن نہیں۔ آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ مردم شماری کی سمری ایک سال سے مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی)کو بھجوائی گئی ہے مگر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کو مردم شماری کے طریقہ کار پر اعتراضات ہیں جو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سمری کی منظوری کے بعد ادارہ شماریات کو مردم شماری کرانے کیلئے دس ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس دوران دو لاکھ سرکاری ملازمین کی تربیت کرائی جائے گی اور مردم شماری کی تمام تر دستاویزات تیار کی جائیں گی۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ مشترکہ مفادات کونسل سے مردم شماری کی سمری کو جلد منظور کرایاجائے اور تمام صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں۔

کمیٹی کے اپوزیشن اراکین نے گڈانی پاور پراجیکٹ، نندی پور اور میٹروبس منصوبوں کا جائزہ لینے کیلئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت عوام کے ٹیکسوں سے جمع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت عوام کے ٹیکسوں سے جمع کئے گئے پیسے سے ناقابل عمل منصوبے شروع کر رہی ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت مہنگی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ گڈانی پاور پراجیکٹ اور ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیداکرنے کے منصوبوں کا جائزہ لیاجائے جب کہ قائداعظم سولر پاور پراجیکٹ سے پیداہونیوالی بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی سترہ روپے ہے۔

کمیٹی کی رکن اور پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ڈیزل سے پندرہ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جب کہ کوئلے اور سولر سے پیدا کی جانیوالی بجلی کی قیمت سترہ روپے فی یونٹ سے زیادہ ہے جو عوام کے لئے ناقابل برداشت ہے۔

کمیٹی کو وفاقی سیکرٹری منصوبہ بندی، ترقیاتی واصلاحات حسن نواز تارڑ نے بتایا کہ یہ منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت شروع کئے گئے ہیں۔ بجلی کے تمام منصوبے پرائیویٹ سیکٹر کے زیر انتظام شروع کئے جارہے ہیں پاکستان یا چین ان کی فنڈنگ نہیں کرے گا۔ چیئرمین کمیٹی عبدالمجید خان خانان خیل نے استفسار کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ کیوں تبدیل کیاگیا جس پر سیکرٹری حسن نواز تارڑ نے کہا کہ چینی حکومت فوری طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کو شروع کرنا چاہتی ہے۔

منصوبے کیلئے دو روٹس زیرغور ہیں۔ مگر وفاقی حکومت نے مشرقی روٹ کا انتخاب کیا ہے جس کے تحت گوادر سے رتوڈیرو اور سکھر سے ملتان جب کہ لاہور سے کاشغر تک سڑکوں اور ریلویلائنز کا جال بچھاگیاہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی روٹ پر فی الحال کوئی کام نہیں ہورہا۔ کمیٹی نے اپوزیشن اراکین کی درخواست پر منصوبوں کا جائزہ لینے کے لئے خصوصی اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔