غزہ پر جنگ، مصر کی سیاسی حیثیت کمزور ہو گئی،السیسی رفح کی راہداری مشروط طور پر کھول سکتے ہیں

جمعہ 25 جولائی 2014 06:18

قاہرہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25جولائی۔2014ء)اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے بہتر پوزیشن کا حامل رہنے والا مصر جلد اپنی اس پوزیشن کے باعث موثر اور اہم رہنے کا مقام کھو دینے کی تبدیلی سے ہمکنار ہونے جا رہا ہے۔ اس کی بنیاد پچھلے ہفتے حماس کی طرف سے جنگ بندی کی مصری تجویز کو مسترد کیے جانے سے رکھ دی گئی ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق حماس نے اس کے باوجود جنگ بندی کی مصری تجویز قبول کرنے سے انکار کیا ہے کہ اب تک 600 سے زائد فلسطینی شہری اسرائیلی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں اور غزہ پر اسرائیلی حملوں سے ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور حماس کے سربراہ خالد مشعل نے قطر میں اپنی غیر معمولی ملاقات کے دوران بھی اس صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

(جاری ہے)

دونوں کے درمیان جہاں جلد جنگ بندی پر اتفاق کیا وہیں رواِئتی معاہدہ باز مصر بالعموم اور اس کے فوج سے آنے والے صدر عبدالفتاح السیسی کی علاقے میں بالادستی اس سے کمزور ہو گیا ہے کہ ان کے درمیان مصر کے علاوہ جنگ بندی کی سوچ سامنے آئی۔حماس کے اہم ترین مطالبے کہ غزہ کی راہداریاں کھولی جائیں کی زد اسرائیل کے ساتھ ساتھ مصر پر بھی پڑتی ہے۔

ہو سکتا ہے مصر اس شرط کے ساتھ رفح کی راہداری کھونے پر آمادہ ہو جائے کہ فلسطینی اتھارٹی کے پولیس اہلکار راہداری پر تعینات کیے جائیں گے۔ مصر میں عبدالفتاح السیی کی حکمرانی کا دور ہے جو اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں اور اپنے ہی ملک کے اندر'' دہشت گردی کے خلاف جنگ '' میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب حماس اخوان المسلمون کی اتحادی ہے۔

بعض لوگوں کے نزدیک جنگ بندی کی مصری تجویز کو رد کیے جانے ایک اہم وجہ یہی چیز بنی ہے۔تاہم مشرق وسطی کے بارے میں اہم تجزیہ کار ڈاکٹر میکس ریب مین کا عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے '' مصر نے ابھی اس معاملے اپنی حیثیت مکمل طور پر نہیں کھوئی ہے۔ '' البتہ یہ اپنی جگہ درست ہے کہ السیسی کی زیر قیادت السیسی نے فوجی نکتہ نگاہ سے اپنی پوزیشن کو سکیڑ لیا ہے۔

خصوصا رفح کی راہداری بند کرنے کے بعد زیر زمین سرنگوں کو اسرائیل سے تعاون کرتے ہوئے تباہ کر نے کے بعد معاہدات کرانے اور جنگ بندی پر آمادہ کر لینے والے رہنما، یا ملک کا کردار عام طور پر دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے لیکن ڈاکٹر ریب مین کے مطابق مصر کم از کم اس وقت ایسا تشخص نہیں رکھتا ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں جغرافیائی امور کا ماہر جسٹن ڈارگن کا کہنا ہے کہ '' اس دوران جزیرہ نما سیناء میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں مصر کے لیے ایک الگ تشویش کے سبب کے طور پر موجود ہے۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اسرائیل اور مصر باہم ایک دوسرے کو ساتھ ملا کر چلنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ مصر اس سارے معاملے میں پہلے کی طرح موثر نہیں رہا۔ اس کی باوجود کہ نئے مصری صدر السیسی کی ذاتی اور عزت کا معاملہ بھی ہو گا کہ بطور مصری قائد انہیں شروع میں ہی غیر موثر ہونے کا تاثر برداشت کرنا پڑے۔

متعلقہ عنوان :