آئندہ برس افغانستان میں زیادہ حملے ہوں گے، نیٹو سربراہ کی تنبیہ، نیٹو فوجی مشن کے اختتام کے بعد بھی افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی‘ طالبان ابھی بھی بڑے دہشت گردانہ حملے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ،سٹولٹن برگ

بدھ 3 دسمبر 2014 08:25

بر سلز (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3دسمبر۔2014ء)مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد وہاں جاری تشدد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم مقامی سکیورٹی دستے اس خونریزی پر قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔ فرا نسیسی خبر رساں ادارے کی برسلز سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نیٹو کے سربراہ ژینس سٹولٹن برگ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران اپنا یہ عزم دہرایا کہ نیٹو فوجی مشن کے اختتام کے بعد بھی افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔

نیٹو کی تاریخ کا طویل ترین جنگی مشن رواں برس کے اختتام پر مکمل ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر غیر ملکی فوجی افغانستان سے واپس بلا لیے جائیں گے جبکہ وہاں سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی دستے سنبھال لیں گے۔

(جاری ہے)

نیٹو کے سربراہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد کہا کہ کابل میں حالیہ خونریز حملے اس لیے کیے گئے تاکہ افغان حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کی کوششوں کی بجائے عالمی میڈیا میں ان حملوں کو سرخیوں کا موضوع بنوایا جائے۔

سٹولٹن برگ نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند ابھی بھی بڑے دہشت گردانہ حملے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ طالبان کسی نئے علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے قابل ہیں۔ناروے کے سابق وزیر اعظم سٹولٹن برگ نے مزید کہا، ”افغانستان میں آئندہ برس بھی پرتشدد حملے ہوں گے لیکن افغان نیشنل سکیورٹی فورسز ان حملوں سے نمٹنے کی اہل ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی تمام تر ذمہ داری افغان حکومت کو سونپ دی جائے۔

“ افغان مشن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سٹولٹن برگ نے کہا، ” ہم نے وہ کر لیا ہے، جس کی ہم نے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس وقت ہماری اقوام زیادہ محفوظ ہیں اور افغانستان زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے اصرار کیا کہ وہ کئی عشروں سے خونریزی کا شکار اپنے وطن افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ستمبر میں صدارتی منصب پر فائز ہونے والے غنی نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ تمام باغی گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

متعلقہ عنوان :