بھارت :آگرہ میں مسلمانوں کو ہندو بنانے پر پارلیمان میں ہنگامہ،حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمراں بی جے پی پر ملک کے سیکولر اصولوں سے کھلواڑ کرنے کا الزام لگایا، مسلمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا اور اب وہ ’خوف‘ کی وجہ سے ان پر الزام لگا رہے ہیں، بجرنگ دل مقامی رہنما اجو چوہان کا دعوی، خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے،ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں ہندو بنایا جارہا ہے،مسلمانوں کا موقف

جمعرات 11 دسمبر 2014 08:35

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11دسمبر۔2014ء)ہندوستان کے شمالی شہر آگرہ میں بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے تقریباً 200 مسلمانوں کا مذہب ’تبدیل‘ کروانے کے واقعہ پر بدھ کو پارلیمان میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمراں بی جے پی پر ملک کے سیکولر اصولوں سے کھلواڑ کرنے کا الزام لگایا۔برطانوی نشریاتی ادار ے کے مطابق یہ واقعہ پیر کا ہے جب آگرہ کی ایک کچی بستی میں رہنے والے تقریباً 50 غریب مسلمان خاندانوں کو ’گھر واپسی‘ کے نام پر ہندو بنانیکا دعویٰ کیا گیا تھا۔

اس تقریب کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جن میں ٹوپی پہنے ہوئے کچھ مسلمان ایک ہندو مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔تقریب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دھرم جاگرن منچ کی جانب سے منعقد کرائی گئی تھی جن کے اہلکاروں کا کہنا ہے جن ہندووٴں نے ماضی میں کوئی دوسرا مذہب قبول کر لیا تھا اب انھیں ’گھر واپس‘ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ پروگرام عرصے سے جاری ہے۔

(جاری ہے)

لیکن جن مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے خود اپنی مرضی سے ہندو مذہب قبول کیا تھا، ان کا اب الزام کہ انھیں ’دھوکے‘ سے تقریب میں بلایا گیا تھا اور تنظیم کے مقامی رہنماوٴں نے انھیں راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کا لالچ دیا تھا۔لیکن بجرنگ دل کے مقامی رہنما اجو چوہان کا کہنا ہے مسلمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا اور اب وہ ’خوف‘ کی وجہ سے ان پر الزام لگا رہے ہیں۔

اس کے برعکس مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے اور انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں ہندو بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے۔ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ قائم کیا ہے کیونکہ ملک میں لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانا ایک جرم ہے اور مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کرنا ضروری ہے۔

راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے رہنماوٴں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ملک کے سیکولر کردار اور آئین کی پاسداری کرے لیکن پارلیمانی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کیسلسلے میں ایک مقدمہ قائم ہوچکا ہے اور اس پورے معاملے سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ واقعے کی تفتیش کرنا اور قصور وار افراد کو سزا دینا ریاستی حکومت کا کام ہے۔ ریاست میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے۔مئی میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد ہندو سخت گیر تنظیم آر ایس ایس کے رہنماوٴں نے کہا تھا کہ ملک میں 800 سو سال بعد ہندووٴں کی حکومت لوٹی ہے۔

متعلقہ عنوان :