پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے ، توانائی کے شعبہ میں خودکفیل ہونے کے لیے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کابھی سامنا ہے ،ڈاکٹر مصدق ملک، توانائی کے حوالہ سے پاکستان کی صورتحال بھارت سے مختلف نہیں ہمیں یہ فرض کرنا چاہیے کہ ہم کون ہیں ، کانفرنس سے خطاب

جمعرات 11 دسمبر 2014 08:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11دسمبر۔2014ء )وزیر اعظم کے معاون خصوصی و ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبہ میں خودکفیل ہونے کے لیے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کابھی سامنا ہے ۔ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام پائیدار ترقی کے راستے کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز "سب کے لیے پائیدار توانائی" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ توانائی کے حوالہ سے پاکستان کی صورتحال بھارت سے مختلف نہیں ہمیں یہ فرض کرنا چاہیے کہ ہم کون ہیں ۔

پاکستان عراق ہے نہ سعودی عرب اور نہ ہی قطر ۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایسے منصوبوں میں آنکھیں بند کر کے سرمایہ کاری کی جاتی ہے جن سے عوام کو کچھ نہیں ملتا ۔

(جاری ہے)

گیس ہی کی مثال لے لیں ہم نے اس قدرتی وسیلے کو جس بے دردی سے استعمال کیا آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ملک میں گیس کی قلت ہے اور لوڈ مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ ایل پی جی کا سہارا لیا جارہا ہے ۔

فورم میں پالیسی ماہرین محمد نوید اختر اور فاطمہ نجیب نے اپنے مقالے پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں بجلی کی کمی ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کررہی ہے خطہ کی چھبیس فیصد آبادی کے پاس بجلی نہیں جبکہ باسٹھ فیصد آباد ی کے پاس گھریلو مقاصد کے لیے ایندھن نہیں ۔بجلی کی کمی کی ایک بڑی وجہ صرف ایک وسیلے پر انحصار کرنا ہے ۔ورلڈ ونڈ انرجی ایسوسی ایشن جرمنی کے صہیب ملک نے ونڈ انرجی کی افادیت کے حوالہ سے کہا کہ بھارت اس سے فائدہ اٹھانے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔

کانفرنس کے ڈیٹا ریولوشن سے متعلق فورم میں تقریر کرتے ہوئے یو این ڈی پی کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر مارک اندرے فرانچے نے شرکاء کو پالیسی سازی میں اعدادوشمار کو استعمال میں لانے سے متعلق بریف کیا جبکہ الف اعلان اعداد وشمار اور شواہد سے متعلق مہم کی مینجر ثمن ناز کا کہنا تھا کہ اسکول جانے والے بچوں کے درست اعداد وشمار نہ ہونے کے باعث اسکول چھوڑنے والے بچوں سے متعلق اعدادوشمار متنازع تصور کیے جاتے ہیں ۔

تحفظ خوراک کے حوالہ سے مباحثہ میں اقوام متحدہ کے ڈپٹی کنٹری نمائندہ فرانسسکو گیمارو کا کہنا تھاکہ تحفظ خوراک کے حوالہ سے بہت زیادہ چیلجز کا سامنا ہے اور ہمیں اس مقصد کے لیے مزید پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہو گا ۔جنوبی ایشیا میں بدلتی صورتحال کے تناظر میں پائیدار ترقی کے لیے ترقیاتی شراکت داری کے حوالہ سے گول میز مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری نے رسد اور طلب میں موجود فرق دورکرنے کے لیے شراکت داری کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ۔

کانفرنس کے امن عمل میں خواتین کے کردار کے حوالہ سے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئیے اے این پی کی سابق رکن قومی اسمبلی شگفتہ ملک کا کہنا تھا کہ خطہ میں دہشت گردی کے باعث خیبر پختونخوا میں خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے اور یہ افسوسناک امر ہے کہ خواتین اپنا گھر ،خاندان چھوڑنے پر مجبور ہیں اور اپنی جانیں بھی قربان کررہی ہیں اور وہ اپنے ہی علاقہ میں بے گھر ہو چکی ہیں ۔

خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلی اور سابق چیئرمین واپڈا ڈاکٹر شمس الملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پانی کے انتظام میں افغانستان کی مدد کرنی چاہیے اور یہ مسئلہ امن کے قیام سے حل ہو سکتا ہے ۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے ماہر ڈاکٹر اباسین نسیمی خطہ میں افغانستان کے کردار کو اجاگر کیا اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے پانی سے متعلق مسائل کے حل میں تعاون کرے

متعلقہ عنوان :