پنجاب پانی اوربجلی کی فراہمی کے حوالے سے سندھ سے زیادتیاں کر رہا ہے،علی نواز ، وفاق کی جانب سے 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مکمل طور پر خود مختیار ی نہ دینا صوبوں کے ساتھ نا انصافی ہے ، ان نا انصافیوں کے خلاف سندھ حکومت ہر پلیٹ فارم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیگی ، وفاق اور پنجاب سے جائز حقوق لینے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی، تقریب سے خطاب

جمعرات 30 اپریل 2015 08:28

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30 اپریل۔2015ء) صوبائی وزیر زراعت ، سپلائی اینڈ پرائسز سردار علی نواز خان مہر نے کہا ہے کہ پنجاب پانی اوربجلی کی فراہمی کے حوالے سے سندھ سے زیادتیاں کر رہا ہے جبکہ وفاق کی جانب سے 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مکمل طور پر خود مختیار ی نہ دینا صوبوں کے ساتھ نا انصافی ہے اور ا نہی نا انصافیوں کے خلاف سندھ حکومت ہر پلیٹ فارم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے قانونی طریقے سے وفاق اور پنجاب سے اپنے جائز حقوق لینے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی بینک اور سندھ حکومت کے مشترکہ تعاون سے ساڑھے سات ارب روپے کی لاگت سے سندھ کے مختلف اضلاع میں فصلوں کی پیداوار بڑھانے ، کاشتکاروں کو فنی تربیت دینے ، سبسڈی پر مشینیں فراہم کرنے اور بہتر نرخوں پر فروخت کرنے کے متعلق سندھ ایگریکلچر گروتھ پراجیکٹ کو متعارف کرانے کے حوالے سے حیدرآباد کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیر سردار علی خان مہر نے مزید کہا کہ پنجاب کو ہم اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہیں مگر پانی کی تقسیم کے حوالے سے پنجاب سندھ سے ہمیشہ زیادتیاں کرتا رہتا ہے اور اس وقت یکم مئی کو سندھ میں پانی چھوڑنا ہے مگر دریائے سندھ میں ایسی کوئی بھی صورتحال اب تک نہیں ہے کیونکہ ہمیشہ پنجاب ڈیڑھ مہینے کی تاخیر سے پانی چھوڑ تا ہے جس کی وجہ سے سندھ کی فصلوں کو ابتدائی پانی نہ ملنے کے باعث نقصان ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ کے دیہاتوں میں 18گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور بلوں میں بھی بڑی غلطیاں ہوتی ہیں جس کے باعث سندھ کی عوام مشکلات سے دو چار ہے ۔ علاوہ ازیں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاق نے صوبوں کو ملنے والے محکموں کے مکمل اختیارات اب تک اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اس لیے وفاق کو چاہیے کہ صوبوں کو مکمل طور پر با اختیار بنایائے تاکہ ہم زراعت کی اندرون اوربیرون ملک تجار ت کیلئے جامع پالیسیاں ترتیب دے کر اپنی پیداوار کی بیرونی ممالک تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ وفاق کی ایسی پالیسی کی وجہ سے صوبوں کے اندر آٹے ، چینی اور چاول کے بحران نے جنم لیا ہے جبکہ کاشتکاروں کو انکے فصلوں کی مناسب قیمت نہیں مل سکتی ۔ انہوں نے گندم کی خریداری سے متعلق باتیں کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سندھ میں باردانے کی تقسیم سے متعلق شکایات موصول ہوئی ہیں جس کی وجہ سے آبادگاروں کو بھی نقصان ہوا ہے جبکہ گنے پر حکومت سندھ نے سبسڈی دی ہے اسکے علاوہ سپریم کور ٹ کی جانب سے گنے کے معاملے پر دیے گئے ہر فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیا جائیگا جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہی حکومت سندھ شگر ملز مالکان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے ۔

سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے تحت سندھ کے چھوٹے اور متوسط طبقے کے کاشتکاروں کو فائدہ ہوگا اور وہ خود کاشتکاروں کے ساتھ ملکر پروجیکٹ کی صوبہ بھر میں نگرانی بھی کرینگے ۔ اس ضمن میں انہوں نے پروجیکٹ میں ٹنڈو محمد خان ضلع کو شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ بدھ کو آبادگار تنظیموں کے نمائندوں کی کراچی میں ایک اہم اجلاس بھی طلب کیا تاکہ پروجیکٹ سے متعلق کاشتکاروں سے تجاویز لی جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے کاشتکار پنجاب کے مقابلے میں کم محنت کش ہیں اس لیے سندھ کے کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ متحد ہوکر اپنی زمینوں پر محنت کریں اور اپنے جائز حقوق کیلئے آواز اٹھائیں ۔ انہوں نے کاشتکاروں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید ٹیکنولاجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ضلعی سطح پر نجی گودام تعمیر کرنے کیلئے بھی منصوبہ بندی کریں تاکہ فصل کے ضایع ہونے کو روکا جا سکے۔

صوبائی وزیر نے سندھ میں چلی بورڈ کو فعال کرتے ہوئے محکمہ زراعت کے افسران کو ہدایت کی کہ وہ کھاد اور زرعی ادویات کے حوالے سے موصول ہونے والی شکایات کے ازالے کیلئے مارکیٹ کی نگرانی کریں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ آبادگار بورڈ کے صدر عبد المجید نظامانی نے بتایا کہ 2015-14کے دوران سندھ کے آبادگاروں کو اہم فصلوں میں 48ارب روپے کا نقصان ہوا اس لیے سندھ حکومت کو گندم کی خریداری کے حدف میں اضافہ کرنا چاہیے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیمبر آف ایگریکلچر سندھ نبی بخش سٹھیو نے کہا کہ سندھ کی زراعت دن بدن پیچھے جا رہی ہے چنانچہ عالمی بینک نے سندھ کی زراعت کو فروغ دلانے کیلئے گذشتہ چار ماہ کے دوران 40ارب روپے قرضہ دیا ہے اسلیے سندھ کی زراعت کیلئے جاری تمام منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے ۔ سندھ آبادگار بورڈ کے جنرل سیکریٹری نے مطالبہ کیا کہ سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ میں آم کی فصل کو بھی شامل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ کے تمام فصل سر پلس ہوئے ہیں لیکن آبادگاروں کو مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا ہے ۔ چلی گرور ایسو سی ایشن کے صدر میاں محمد سلیم نے کہا کہ عالمی بینک نے سندھ میں مرچی پر جامع تحقیق کی ہے اس لیے دنیا کے معیار پر پورا اترنے کیلئے سندھ کے کاشتکاروں کو معیاری فصل پیدا کرنا ہونگے ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے زراعت ، سپلائی اور پرائسز کے صوبائی سیکریٹری شاہد گلزار شیخ نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے تحت نقصانات کو کم کر کے پیداوار میں اضافہ کیا جائیگا جبکہ کاشتکاروں کو فنی مہارت دینے کے ساتھ ساتھ سبسڈی پر مشینری بھی دی جائینگی ۔

انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ میں شامل فصل اور علاقے محدود نہیں ہیں لیکن پروجیکٹ کی شرائط کے متعلق سندھ کی کوئی بھی فصل کسی بھی علاقے میں کارآمد ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ زراعت سندھ کو سہولیات دینے کیلئے ہر وقت کوشاں ہے ۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ارشاد انصاری نے بتایا کہ پروجیکٹ کے تحت کاشتکاروں کو تربیت دینے کیلئے مختلف علاقوں میں کمیٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں ۔

متعلقہ عنوان :