سانحہ صفورہ چورنگی اور دہشت گردی کے بڑے جرائم کا کامیابی سے سراغ لگا یا ،قائم علی شاہ،پی پی پی حکومت نے دہشت گردوں کو گرفتار اورسنگین جرائم کو نچلی سطح تک لانے سے بہترین حکمرانی کا ثبوت دے کر سول و ملٹری قیادت سے شاباشی حاصل کی ،وزیر اعلیٰ سندھ

جمعہ 22 مئی 2015 06:32

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 مئی۔2015ء) وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ سانحہ صفورہ چورنگی سمیت کراچی میں دہشت گردی کے کئی بڑے جرائم کا کامیابی سے سراغ لگا کر دہشت گردوں کو ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کرنے اورصوبے سمیت کراچی شہر میں سنگین جرائم کو نچلی سطح تک لانے سے پی پی پی حکومت نے بہترین حکمرانی کا ثبوت دیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی سول و ملٹری قیادت سے شاباشی حاصل کی ہے۔

انہوں نے تنقید کرنے والوں سے کہا کہ وہ پی پی پی حکومت سے پہلے کراچی میں کورکمانڈر پر حملہ، امریکن قونصل خانے پر حملہ اور اس وقت کے شیرٹن ہوٹل کے پاس سب میرین کے انجنیئروں پر اور دیگر دہشت گردی اور یہاں تک کہ اس وقت کے ملکی صدرپر دو مرتبہ حملے کے واقعات کو بھی دیکھیں ، جس میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں ضائع ہوگئیں، اور ان سے سوال کیا کہ کیا وہ بہتر حکمرانی تھی؟ وزیراعلیٰ سندھ نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کراچی پولیس اور رینجرز کی کاوشوں کو سراہا لیکن انہوں نے ضلع ملیر کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے ایک مقابلے کے بعد کی گئی پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار نے اپنی اتھارٹی سے باہر بات کی اور کہا کہ پولیس افسران کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

(جاری ہے)

وہ آج انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ایک وفد سے مخاطب تھے جس نے آج ان سے کمیٹی کی چیئر پرسن سینٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کی۔وفد میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینٹر جہانزیب جمال الدین ، سینٹر میر کبیر ایم شاہی، سینیٹر نثار محمد، سینیٹر سحر کامران اور ثمینہ عابد بھی شامل تھی۔ قائمہ کمیٹی کی چئیر پرسن نسرین جلیل اور دیگر سینٹروں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی میں سنگین جرائم کے خاتمے کے لئے ستمبر 2013میں تمام سیاسی پارٹیوں کی رضامندی اور وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے ٹارگیٹیڈ آپریشن شروع کیا گیا تھا جس پر لگائے گئے تخمینے کے مطابق 28ارب روپے کا خرچ آنا تھا کئے گئے متفقہ فیصلے کے مطابق 50فیصد خرچہ وفاق اور 50فیصد صوبائی حکومت کو ادا کرنا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں اپنے حصے کے 14ارب نہیں ملے تو ہم نے وفاق کو گزارش کی کے وہ کم از کم دس ارب فراہم کرے جس کو وفاقی حکومت نے قبول کیا مگر باوجود اسکے کوئی حصہ ابھی تک نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اپیکس کمیٹی کی میٹنگ جو کہ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت میں ہوئی اس میں آئی جی سندھ پولیس نے یہاں تک کہا کہ کم از کم سندھ حکومت کو 3سے 4ارب روپے دیئے جائیں تاکہ ہم بکتر بند گاڑیاں اور دیگر اسلحہ و بارود خرید کر سکیں لیکن اس حد تک جانے کے بعد بھی ہمیں اب تک کوئی بھی مالی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لئے اور سندھ پولیس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت ہم نے گزشتہ سال میریٹ پر10ہزار پولیس اہلکار بھرتی کئے اور اسی طرح اس سال بھی 10ہزار پو لیس اہلکار میرٹ پر بھرتی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بھی اے ایس آئی یا سب انسپیکٹرسفارش پر بھرتی نہیں کیا گیا بلکہ تمام کے تما م سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کئے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان اہلکاروں کو پاک آرمی کے ٹرینرز کے ذریعے تربیت دلوا رہے ہیں جس کے ساتھ انہیں جدید اسلحہ و آلات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سپاہی کی شہادت پر انکے ورثاء کو صرف 2لاکھ روپے دیئے جاتے تھے لیکن ہم نے اسکو 20لاکھ تک بڑھایا ہے تاکہ ان میں حوصلہ پیدا ہو ۔ انہوں نے پانی سے متعلق پوچھے گئے سوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاق نے کراچی کے پانی کے مسئلے کے حل کے لئے بھی سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور کراچی کے پانی کے لئے نئے پروجیکٹ K-IVپر جو انہیں برابر الوکیشن دینی تھی وہ بھی نہ دی باوجود اسکے کہ سندھ حکومت پچھلے دو سالوں سے اس پروجیکٹ پر عملدرآمد کے لئے اپنے حصے کی رقم مختص کرتی آئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی تمام اوور ہیڈ بریجیز سندھ حکومت کے وسائل سے تعمیر کئے گئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا ویژن تھا جس نے 1994میں کراچی کی ترقی کے لئے 121بلین روپوں کو ترقیاتی پروجیکٹ دیا جس کے تحت کراچی کے انفرسٹکچر کو ڈولیپ کرنا تھا اور اس وقت کی کے ای ایس سی کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ جناح فلائی اوور (نیٹی جیٹی) بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تعمیر کروائی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی پیپلزپارٹی کی حکومت کا ہی کارنامہ ہے کے اس نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو پاپولیشن کے بجائے مختلف فیکٹرز پر منظور کرایا جس کے تحت صوبوں کو زبردست مالی فائدہ ہوا انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے منقسم پول سے وفاق اپنے پاس 56فیصد رکھتا تھا اور صوبوں میں 44فیصد تقسیم کرتا تھا لیکن ہم نے اسکو مختلف فیکٹرز پر منظور کرا کے صوبوں کو 56فیصد اور مرکز کو 44فیصد وصول کرنے پر راضی کیا ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی وفاقی حکومت مدت پوری ہونے کے باوجود اس ایوارڈ کو نئے سرے سے ایشو کرنے میں ہچکچہاٹ سے کام لے رہی ہے کیونکہ قاعدے کے مطابق نیا آنے والا ایوارڈ پچھلے سے بہتر ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ بلکہ ہم نے سروسز پر سیلز ٹیکس کی وصولی کا کام بھی اپنے ہاتھ میں لیا اور پہلے ہی سال وفاق کی جانب سے اس مد میں ملنے والے 6ارب کی بجائے 25ارب روپے وصول کئے دوسرے سال 39ارب اور اس سال 49ارب کا حدف رکھا ہے اور سوال کیا کہ کیا یہ بہترین حکمرانی کا ثبوت نہیں ?وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے جو منی پاکستان تصور کیا جاتا ہے یہ شہر ملکی معیشت کا حب ہے لیکن اس شہر میں روزانہ کے حساب سے ملکی ودیگر صوبوں اور دیگر ممالک سے آنے والے لوگوں کے بوجھ سے اسکے انفراسٹکچر اور امن و امان پر فرق پڑا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے نارا اور نادرا جیسے ادارے ناکام گئے ہیں ۔ اس طرح کی بڑھتی ہوئی آبادی سے کئی مسائل نے جنم لیا اور لوگوں نے اب تو ڈرینیج نالوں پر بھی تجاوزات قائم کر لی ہیں جس سے ڈرینیج کی فروانی پر اثر پڑا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی پی حکومت سے پہلے 10سے 12سال تک آمریت کی حکمرانی تھی لیکن اس دور میں کراچی کے سسٹم کو بہتر کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔

انہوں نے کہا جب ہم 2008میں اقتدار میں آئے تو ہم نے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جس کے تحت پانی کے لئے 2006سے التواء میں پڑا ہوا K-IV کے منصوبے کو 25ارب روپوں کی لاگت سے دوبارہ بحال کیا اور ڈرینیج کے پروجیکٹ S-IIIکے رکے ہوئے کام کو بحال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کراچی میں صرف 2یونیورسٹی تھیں لیکن ہم نے مزید 4 نئی یونیورسٹی بنائی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سول اسپتال کراچی اور عباسی شہید اسپتال کی بھی توسیع و تزئین کی اور جدید بنایا ۔ انہوں نے کہا ہم نے اپنے اس دور حکومت میں 11 اوور ہیڈ بریج بنا ئے اور کراچی میں 6ارب روپے کی لاگت سے بہت بڑا ٹراما سینٹر بنا ر ہے ہیں جوکہ اپنی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سندھ کے بہت ہی پسماندہ علاقوں میں بھی ترقیاتی کام کروائے ہیں صرف تھرپارکر ضلع میں 750آر او پلانٹ لگا رہے ہیں جن میں سے 350لگ چکے ہیں باقی دسمبر 2015تک مکمل ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا مٹھی میں ایشیا کا سب سے بڑا آراو پلانٹ لگایا گیا ہے جس سے روزانہ 20لاکھ گیلن پانی لیا جاسکتا ہے ۔ جبکہ اسلام کوٹ میں پندرہ لاکھ گیلن پانی روزانہ دینے والا آر او پلانٹ بھی لگا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے دور حکومت میں دو لاکھ لوگوں کو ڈائریکٹ روزگار دیا جبکہ ایک لاکھ 80ہزار لوگوں کو70شعبوں میں فنی تربیت دے کر قابل روزگار بنایا ۔

اس موقع پر ہیومن رائٹس کے متعلق سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی چئیر پرسن نسرین جلیل اور دیگر سینٹروں نے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کراچی کا دورہ کرنے کا مقصد صفوراہ سانحے کے متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجتہی کرنا اور سندھ حکومت کی جانب سے سانحے کے ملزمان کی فوری سراغ رسانی اور گرفتاری پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی چئیر پرسن نسرین جلیل کا خیال تھا کے کراچی کے معاشی اور سماجی شہری وسائل کو حل کرکے ہی شہر میں امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کراچی کے شہریوں کو درپیش پانی کے مسئلے کو بھی اٹھایا اور اسکے فوری حل کی سفارش کی ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سانحہ صفوراہ کے ملزموں کی فوری گرفتاری سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریڈیٹ میں اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کو سکون ملا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی ملزمان کو عدالت کے کٹھہڑے میں لایا جائیگا ۔ وفد کے دیگر سینٹروں نے بھی امن و امان کے لئے سند ھ حکومت کی کاوشوں کو سراہا اورخاص طور پر کراچی میں سنگین جرائم کے خلاف ٹارگیٹیڈ آپریشن کو بلاتفریق جاری رکھنے پر سندھ حکومت کی تعریف کی۔

متعلقہ عنوان :