سپیکر بلوچستان اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا متفقہ فیصلہ، کابینہ کے اجلاس میں متعدد قوانین میں ترامیم کے مختلف مجوزہ ترامیمی بلات پر بحث ، کابینہ نے طویل بحث اور غور و خوص کے بعد مجوزہ ترامیمی بلات کو صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دے دی

جمعہ 22 مئی 2015 06:32

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 مئی۔2015ء ) صوبائی وزیر اطلاعات ، قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر صدارت جمعرات کے روز منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد کابینہ میں کئے گئے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعرات کے روز چھ گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبائی اسمبلی کے رواں اجلاس کے دوران سپیکر بلوچستان اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا متفقہ فیصلہ کیاگیا ہے انہوں نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں متعدد قوانین میں ترامیم کے مختلف مجوزہ ترامیمی بلات پر بحث کی گئی۔

کابینہ نے طویل بحث اور غور و خوص کے بعد مجوزہ ترامیمی بلات کو صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دے دی۔

(جاری ہے)

ان بلات میں بلوچستان ساؤنڈ سسٹم (ریگولیشن) بل مجریہ 2015ء، بلوچستان گواہان کی حفاظت کا بل مجریہ 2015ء ، دیواروں پر چاکنگ ، خصوصاً متنازعہ ، فرقہ وارانہ ، آئین اور قانون کے خلاف چاکنگ کا بل مجریہ 2015، بلوچستان ریونیو اتھارٹی بل مجریہ 2015ء،بلوچستان سیلز ٹیکس اینڈ سروسز بل مجریہ 2015،اورٹی ٹی سی انڈسٹریل ملازمین کی مستقلی کابل مجریہ 2015ء شامل ہیں، جبکہ کابینہ کے اجلاس میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا، صوبائی وزیر نے کہا کہ صوبے میں پی ایس ڈی پی کے مختص فنڈ کو خرچ کرنے اور ترقیاتی اسکیمات پر عملدرآمد تقریباً مکمل ہو چکا ہے، سوائے چند ایسی اسکیمات جن پر تحقیقات جاری ہیں اور سائٹ پر تنازعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد کو خوش آئندہ قرار دیا اور ساتھ ہی عملدرآمد کرنے والے محکموں کو سختی سے ہدایت کی کہ جاری کاموں پر عملدرآمد کو مزید تیز کیا جائے۔ صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ کابینہ کو محکمہ داخلہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں بتایاگیا کہ اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت ،ڈکیتی ، لوٹ مار جیسے سنگین جرائم کی شرح میں 70فیصد سے زائد جبکہ عمومی نوعیت کے جرائم کی شرح میں 40فیصد کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر جرائم کی شرح میں 55فیصد کمی ہوئی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے، کابینہ نے محکمہ داخلہ،پولیس، لیویز و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صوبے میں قیام امن کے لیے نمایاں کردار پر داد تحسین پیش کیا ،جبکہ اس بات پر اطمینان کا اظہار کیاگیا کہ مسخ شدہ لاشوں اور گمشدگیوں کے واقعات میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ دہشت گرد ی کے بڑے واقعات میں ملوث بیشتر افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ جبکہ اغواء برائے تاوان کے متعدد گروہ بھی پکڑے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ توتک کے واقعہ پر قائم کمیشن کی رپورٹ بھی پہلی مرتبہ شائع کی گئی جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں پانی کی شدید کمی اور مستقبل قریب میں لورالائی قلعہ سیف اللہ سے لیکر خضدار تک کا علاقہ پینے کے پانی سے محروم ہو جانے کے خدشے اور ساتھ ہی صوبے میں پیدا ہونے والی تقریباً 2400 میگا واٹ بجلی میں سے صوبے کو صرف تقریباً 500میگا واٹ بجلی فراہم کئے جانے کی وجہ سے تمام صوبے میں بجلی کے شدید بحران کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ، کمیٹی جلد اسلام آباد جا کر وفاقی حکومت سے دونوں اہم معاملات پر بات کرے گی جبکہ یہ فیصلہ بھی کیاگیا کہ بین الاقوامی ڈونرز اداروں کو بھی اس سنگین بحران کے خاتمے کیلئے صوبے کی مدد کے لیے آمادہ کیا جائیگا، صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے مزید بتایا کہ صوبے میں فشریز ، لائیو اسٹاک، مائنز اینڈ منرلز، زراعت اور جنگلات کے فروغ اور ماحولیات میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں، ان شعبوں میں سرمایہ کاری سے صوبے میں بیروزگاری کا خاتمہ اور مہنگائی میں کمی کی جا سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ کو محکمہ خزانہ کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2015-16 کے بجٹ کا حجم 2سو ارب روپے سے زیادہ ہوگا، 5ہزار ملازمین کو مستقل کرنے، 18ویں ترمیم کے تحت جو محکمہ جات صوبائی حکومت کے حوالے ہوئے کے علاوہ دیگر بہت سے محکموں کے عارضی ملازمین کی مستقلی اورپولیس، لیویز کی تنخواہوں میں اضافہ سے نان ڈویلپمنٹ اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح وفاقی اور صوبائی محصولات میں بھی اضافہ ہوا ہے اگرچہ رائلٹی کی مد میں کمی واقع ہوئی ہے۔