ایٹمی عدم پھیلاوٴ پر مذاکرات ناکام ،امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنا نے کا منصو بہ مسترد کر دیا

پیر 25 مئی 2015 06:32

نیو یا رک(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25 مئی۔2015ء)امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنا دیا جانا چاہیے۔ یوں ایٹمی عدم پھیلاوٴ کے بارے میں عالمی مذاکرات بے نتیجہ ہی ثابت ہوئے۔ ڈیڑھ سو ممالک کے مندوبین نے ایک ماہ تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں شرکت کی۔ اس مذاکراتی عمل کے دوران ایٹمی عدم پھیلاوٴ (این پی ٹی) نامی معاہدے کے تحت آئندہ پانچ سال تک کی حکمت عملی تیار کی جانا تھی۔

اس معاہدے کا بنیادی مقصد جوہری ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ تاہم اس معاہدے کے رکن ممالک اس میٹنگ میں مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے مستقبل کے لائحہ عمل پر متفق ہونے میں ناکام ہو گئے۔اس کانفرنس میں شریک امریکی، برطانوی اور کینیڈین مندوبین نے اس مذاکراتی عمل کی ناکامی کے لیے مصر اور عرب ممالک کو قصور وار قرار دیا ہے جبکہ مصر نے اس کی ذمہ داری امریکا پر عائد کی ہے۔

(جاری ہے)

ایک مغربی سفارتکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر روئٹرز کو بتایا، ”مصر نے اس کانفرنس کو سبوتاژ کر دیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مصر ہی ہے جس نے اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔اس کانفرنس میں اسرائیل نے بھی شرکت کی۔ اگرچہ اسرائیل این پی ٹی کا رکن ملک نہیں ہے لیکن اس نے بطور مبصر اس کانفرنس میں حصہ لیا۔

اس دوران اسرائیل نے بھی مصر اور عرب ممالک کی طرف سے پیش کردہ اس بارے میں منصوبے کو مسترد کر دیا کہ مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل ہی ایک ایسا ملک ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جوہری طاقت ہے۔ لیکن اس نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کانفرنس میں شریک غیر وابستہ تحریک کے رکن ملک ایران نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ حتمی مسودے کی تیاری کے لیے وقفے کیا جائے تاکہ رکن ممالک مزید مشاورت سے آپس کے اختلافات دور کرنے کی کوشش کریں لیکن اس کے باوجود بھی اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

ایٹمی عدم پھیلاوٴ (این پی ٹی) پر عملدرآمد 1970ء میں شروع ہوا تھا۔ اس ٹریٹی کے رکن ممالک اور اقوام کی تعداد 190 بنتی ہے۔ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کی کوشش کے سلسلے میں اس ٹریٹی کے رکن ممالک ہر پانچ برس بعد ملتے ہیں۔ اس معاہدے کو پانچ جوہری طاقتوں اور ایسے ممالک کے مابین ایک سودا بھی قرار دیا جاتا ہے، جو عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے بدلے اپنے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش ترک کرنے پر تیار ہوں۔تاہم جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی سست رفتاری پر متعدد ممالک اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس کانفرنس میں بھی ایسے رکن ممالک نے زور دیا کہ دنیا کوجوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کے کوششیں تیز تر کی جانا چاہییں۔