خیبر پختونخوا اسمبلی میں قصور واقعہ کیخلاف مذمتی قراردار متفقہ طور پر منظور ،سانحہ قصور کو سانحہ آرمی پبلک سکول سے بڑا واقعہ قرار دیا گیا ،صوبائی اسمبلی کا مسیحیوں اور اقیلتی و ہندؤں کی شادیوں کے بارے میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کا مطالبہ، اسمبلی پولیس آرڈر 2002ترمیمی بل سمیت اپوزیشن کی ایک ترمیم کی بھی منظوری

منگل 11 اگست 2015 09:31

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11 اگست۔2015ء)خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومتی و اپوزیشن ارکان نے قصور میں کم سن بچون سے بد فعلی کے واقعے کو سانحہ آرمی پبلک سکول سے بڑا واقعہ قراردیتے ہوئے اس کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پرمنظور کرلی اسمبلی نے مسیحیوں اور اقیلتی و ہندؤں کی شادیوں کے بارے میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کا مطالبہ کیا جب کہ اسمبلی پولیس آرڈر 2002ترمیمی بل سمیت اپوزیشن کے ایک ترمیم کی منظوری دے دی بل کے مطابق صوبہ بھر میں موجود مصالحتی کمیٹیوں کو فعال بنانے اور ان کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جس کے تحت انسپکٹر جنرل آف خیبر پختونخوا (آئی جی پی) عدالتی دائرہ اختیار سے باہر رہتے ہوئے صوبے میں معمولی نوعیت کے تنازعات کے حل کیلئے ضلع، تحصیل اور تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کر سکیں گے پیر کے روز اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی نے نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ قصور میں 300بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیااور 6ہزار ویڈیوز بناکر والدین کو بلیک میل کیا گیا جبکہ ان بچوں کی عمریں 14سال سے کم ہے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک، مسلم لیگ(ن) کے ارباب اکبر حیات، تحریک انصاف کے قربان خان قومی وطن پارٹی کے بخت بیدار خان نے قصور واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی بعد ازا ں حکو مت اور اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے نگہت اورکزئی نے کہا کہ یہ صوبائی اسمبلی قصور میں معصوم بچوں کیساتھ رونماء ہونے والے واقعہ کی مذمت کرتی ہے اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پنجاب حکومت کو ہدایت کرے کہ واقعہ میں ملوث ملزمان کو سخت ترین سزا دی اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے بعد ازاں ایوان نے مشترکہ قرارداد کی متفقہ منظوری دے دی ایوان میں وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی نے ہندوؤں اور مسیحی برادری کے شادیوں اور طلاق سے متعلق قرداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 144کے تحت یہ صوبائی اسمبلی سفارش کرتی ہے کہ پارلیمنٹ اقلیتی برادری ہندواور مسیحی شادی اور طلاق سے متعلق قانون سازی کرے قرارداد پیش ہونے کے بعد جمعیت علمائے اسلام(ف) سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن عسکر پرویز نے کہا کہ مسیحیوں میں طلاق نہیں ہوتی اس لئے قرار داد سے مسیحی طلاق کے الفاظ حذف کئے جائیں جس کے بعد قرارداد سے مسیحی طلاق کے الفاظ حذف کر دیئے گئے اور بعد ازاں ایوان نے ترمیمی قرارداد کی متفقہ منظوری دے دی۔

(جاری ہے)

اس طرح اسمبلی نے خیبر پختونخوا اسمبلی نے پولیس آرڈر 2002ترمیمی بل سمیت اپوزیشن کے ایک ترمیم کی منظوری دے دی بل کے مطابق صوبہ بھر میں موجود مصالحتی کمیٹیوں کو فعال بنانے اور ان کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جس کے تحت انسپکٹر جنرل آف خیبر پختونخوا (آئی جی پی) عدالتی دائرہ اختیار سے باہر رہتے ہوئے صوبے میں معمولی نوعیت کے تنازعات کے حل کیلئے ضلع، تحصیل اور تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کر سکیں گے جس کے ایک یا ایک سے زیادہ ارکان ہونگے پولیس آرڈر 2002ترمیمی بل کے مطابق صوبے میں پہلے سے موجود مصالحتی کمیٹیوں اور ان کے کئے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا اور ان کو برقرار رکھا جائے گا