تحریک انصاف کے رکن اسمبلی خرم شیر زمان کی صوبائی اسمبلی کو دو نمبر قرار دینے کے قابل اعتراض بیان کا سخت نوٹس

ان کے خلاف متفقہ طور پر تحریک مذمت منظور کر لی

پیر 17 اپریل 2017 23:55

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل اپریل ء) سندھ اسمبلی نے پیر کو پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان کی جانب سے صوبائی اسمبلی کو دو نمبر قرار دینے کے قابل اعتراض بیان کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کے خلاف متفقہ طور پر تحریک مذمت منظور کر لی۔ پیپلز پارٹی کے رکن میر نادر خان مگسی تحریک کی منظوری سے قبل آخری لمحات تک اس کوشش میں مصروف رہے کہ کسی طریقے سے معامل افہام و تفہیم سے حل ہو جائے اور تحریک مذمت منظور کرنے کی نوبت نہ آئے۔

اس حوالے سے اسپیکر اور سینئر وزیر پارلیمانی امو رکی جانب سے خرم شیر زمان پر بار بار یہ زور دیا جاتا رہا کہ وہ ایوان میں واضح الفاظ میں اپنے ریمارکس پر پورے ایوان سے معافی مانگیں لیکن انہوں نے معذرت کے الفاظ استعمال کیے ، جو قبول نہیں کیے گئے اور ان کے خلاف تحریک مذمت منظور کر لی گئی۔

(جاری ہے)

ایوان کی کارروائی کے آغاز میں اسپیکر آغا سراج درانی نے ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ اسی ایوان کے ایک ممبر نے اس ہاؤس کو دو نمبر قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ثمر علی خان کے اس باین سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایوان میں بیٹھنے والے تمام ارکان اور میں بھی دو نمبر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے بعد ایوان کی اس سے زیادہ اور کیا بے عزتی ہو گی۔ جس پر وزیر پارلیمانی امور نثار کھوڑو نے یاد دلایا کہ ایک زمانے میں جب میں اپوزیشن لیڈر تھا اور ایک وزیر کے بارے میں کچھ کہا تھا تو میرے خلاف تحریک مذمت پاس کرا دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگر خرم شیر زمان 168 ارکان کے اس ایوان سے واضح الفاظ میں معافی مانگتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کے خلاف تحریک مذمت ہمارے پاس تیار ہے۔ وہ ابھی ہم پیش کریں گے۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان سے دریافت کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ بھی دو نمبر ہیں کیونکہ اس ایوان کے رکن تو آپ بھی ہیں۔

انہوں نے ایم کیو ایم کے سیف الدین خالد سے بھی پوچھا کہ آپ ایک نمبر ہیں یا دو نمبر۔ اس موقع پر ثمر علی خان نے کہا کہ خرم شیر زمان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیے ، وہ فرسٹیشن کا نتیجہ تھے کیونکہ ایوان میں اکثر اپوزیشن ارکان کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ جس پر اسپیکر نے کہا کہ اگر یہ بات بھی ہے تو کیا آپ اپنے دل کی بھڑاس پوری اسمبلی پر نکالیں گے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسی اسمبلی کی وجہ سے پاکستان بنا ہے اور آپ اور ہم اس اسمبلی کی وجہ سے ایوان میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے پہلے یہ علم ہوتا کہ پی ٹی آئی والے کسی وقت پوری اسمبلی کو دو نمبر کہیں گے تو میں آپ لوگوں کے استعفیٰ جو میرے پاس جمع کرائے گئے تھے میں قبول کر لیتا۔ نثار کھوڑو نے کہا کہ جمعہ کے روز اجلاس اس لیے ملتوی کیا گیا تھا کہ اس روز جمعہ تھا۔

ارکان کی تعداد بھی کم تھی اور اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ جمعہ کا وقفہ سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹس کا معاملہ آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا جائے۔ اسے ہم نے منسوخ نہیں کیا تھا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے نادر مگسی کی کوشش تھی کہ ایوان کا ماحول کشیدہ نہ ہو اور معاملہ افہام و تفہیم سے طے ہو جائے۔

انہوں نے کئی بار حکومتی ارکان کو تحمل سے کام لینے اور خرم شیر زمان کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ وہ ایوان میں معافی مانگ لیں ، جس پر خرم شیر زمان نے جذباتی ہو کر کہا کہ پہلے حکومت اپنے کرتوتوں پر معافی مانگے۔ میں اپنے ریمارکس پر معذرت کر سکتا ہوں۔ جس پر سرکاری ارکان مشتعل ہو گئے اور اسپیکر نے خرم شیر زمان سے دو ٹوک الفاظ میں دریافت کیا کہ وہ واضح الفاظ میں معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں۔

نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ہم ان کے منہ سے صرف لفظ ’’ معافی ‘‘ سننا چاہتے ہیں۔ جس پر خرم شیر زمان نے نفی میں سر ہلا دیا اور اسپیکر نے وزیر پارلیمانی امور کو ہدایت کی کہ وہ تحریک مذمت پیش کریں۔ نثار کھوڑو نے اسے ایوان میں پیش کیا ، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ تحریک کی مخالفت اپوزیشن کے کسی بھی پارلیمانی رکن نے نہیں کی۔ اس موقع پر اسپیکر نے کہا کہ جس اسمبلی کو دو نمبر کہا جا رہا ہے ، اسی اسمبلی سے ارکان کو تنخواہ ملتی ہے اور رزق ملتا ہے۔ تحریک مذمت میں کہا گیا ہے کہ خرم شیر زمان نے پورے ایوان کے تقدس اور تمام ارکان کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ اس لیے یہ ایوان ان کے بیان کی متفقہ طور پر مذمت کرتا ہے۔ تحریک کی منظوری پر اسپیکر نے کہا کہ یہ بڑے شرم کی بات ہے۔