سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے دائردرخواستوں کی سماعت (آج) تک ملتوی

بدھ 3 مئی 2017 21:59

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات مئی ء) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے دائردرخواستوں کی سماعت (آج) جمعرات کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے کہاہے کہ عوام کوانصاف ملنے کیلئے پرانے کیسوں کواٹھایاجارہاہے، ٹیکس گوشوارے میں جائیداد ظاہر نہ کرنے کے بھی نتائج ہوسکتے ہیں۔

عدالت نے سماعت سے قبل کیس کے با رے میں میڈیا ٹاکس پر برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ایسے لوگ میڈیا پر گفتگو میں مصروف ہیں جو کیس میں فریق ہی نہیں۔ بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پردرخواست گزارکے وکیل حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے پیش ہوکر پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں اور کہاکہ تحریک انصاف بیرونی فنڈنگ سے چل رہی ہے، اس جماعت کو2010ء سے 2013ء تک دو اعشاریہ تین ملین ڈالر بیرونی کمپنیوں نے بھیجے اور2015ء میں ایک ملین ڈالر کا چندہ لیا۔

(جاری ہے)

ان کا کہناتھا کہ پی ٹی آئی نے ملین روپے ابراج کمپنی کے طارق شفیع کے ذریعے حاصل کئے جس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی بیرون ممالک آف شور کمپنیاں ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ ہم اس لئے پرانے کیسز کو اٹھا رہے ہیں تاکہ عام لوگوں کو انصاف ملے لیکن پہلے یہ واضح کریں کہ آپ نے اپنی درخواست میں کیا استدعاکی ہے۔

فاضل وکیل نے بتایاکہ انہوں نے مقدمہ میں مزید فریق بنانے کی استدعا کی ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مقدمہ کے حوالے سے قبل ازسماعت میڈیاٹاکس پربرہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ایسے لوگ بھی میڈیا پر گفتگو کرتے ہیں جو کیس میں فریق ہی نہیں۔ اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہاکہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں غیر ملکی فنڈنگ نہ لینے کا جواب دیتے ہوئے جھوٹ بولا ہے، اب ان پر 62، 63 کا اطلاق ہوتا ہے، عمران نے کئی مواقع پر نیازی سروسز لمیٹڈ کے وجود کا اعتراف کیا ہے جس کاذکر اثاثوں میں نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ ہم تمام باتیں اور پہلو ذہن میں رکھ کر مقدمہ لیکر چلیں گے۔ اکرم شیخ نے بتایا کہ عمران خان نے 1982ء میں انکم ٹیکس دینا شروع کیا اور1983ء کے ٹیکس ریٹرن میں انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ ایک لاکھ سات ہزار پاؤنڈ کہاں سے آئے،30جون 2015ء کو نیازی سروسز کو بند کیا گیا، اس طرح انہوں نے 2015 ء تک کسی انتخابی یا ٹیکس گوشوارے میں آف شور کمپنی کا ذکر نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ کیا جائیداد ظاہر نہ کرنا بدنیتی ہے۔ اکرم شیخ نے بتایاکہ عمران خان نے مشرف دور میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کالا دھن سفید کیا اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں بھی لندن جائیداد ظاہر نہیں کی۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ جب جائیداد نیازی سروسز کے نام پر تھی تو کیا اس کاظاہر کرنا لازمی تھا۔ جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ اگرکوئی جائیداد کا بینیفشل مالک ہو تو اسے ظاہر کرنا ضروری ہے، عدالت نے دوہری شہریت کیس میں بھی ملک کے ساتھ مخلص ہونے کا نکتہ اٹھایا تھا۔

انہوں نے کہاکہ عمران خان نے ایک جگہ خود کو آف شور کمپنی کا مالک کہا اوردوسری جگہ پر آف شور کمپنی کے بینی فشل اونر کا دعوی کیا، نیازی سروسز کی تین اور آف شور کمپنیاں ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نیازی سروسز آف شور کمپنی ہے تاہم جولوگ ٹیکس گوشواروں میں جائیداد ظاہر نہیں کرتے اس کے بھی نتائج ہوتے ہیں لیکن کیاکوئی پاکستان سے باہر جاکر جائیداد لینا چاہے تو اس پر پابندی ہے۔

درخواست گزارکے وکیل نے کہاکہ بے شک جائیداد خریدنے پر پابندی نہیں لیکن ہرکوئی جائیداد اور اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ کیا قانون کے مطابق خریدی گئی جائیداد غیرقانونی ہوگی کیونکہ جائیداد ذاتی طور پر اور کمپنی قائم کرکے بھی خریدی جاسکتی ہے۔ فاضل و کیل نے جواب دیاکہ قانون کے مطابق جائیداد خریدنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن جائیداد خریدی جائے تو اسے ظاہر کرنا لازمی ہے، بنی گالہ کی 300 کنال پانچ مرلے کی اراضی بے نامی ہے، عمران خان اپنے بیانات میں اقرار کرچکے ہیں کہ بنی گالہ کی زمین لندن فلیٹ بیچ کر خریدی گئی۔

بعد ازاں عدالت نے عدالتی احاطے میں ہر قسم کی سیاسی بیان بازی پر پابندی عائد کر تے ہوئے مزید سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی