جب عدالت عظمیٰ نے تمام آبزرویشن دیدی تو معاملے کو نیب میں بھجوا کر کینگرو ٹرائل کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے‘ عاصمہ جہانگیر

آئین کا آرٹیکل 10اے بڑا واضح ہے ،کیا نواز شریف اس ملک کے شہری نہیں جنہیںاس حق سے محروم رکھا گیا ،ملک میںبڑے عجیب و غریب حالات ہیں ہم آگے چلنا چاہتے ہیں لیکن جو جمہوریت کو جڑیں نہیں پکڑنے دینا چاہتے وہ ہمیں واپس کھینچ کھینچ کر لاتے ہیں‘ نجی ٹی وی سے گفتگو

جمعہ 28 جولائی 2017 22:56

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ جولائی ء)سینئر قانون دان و سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ جب عدالت عظمیٰ نے اپنی تمام آبزرویشن دیدی ہے تو پھر تو اس معاملے کو نیب میں بھجوا کر کینگرو ٹرائل کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے بلکہ وہ فیصلہ بھی خود ہی کر دیتے ،آئین کا آرٹیکل 10اے بڑا واضح ہے کیا نواز شریف اس ملک کے شہری نہیں ہیں کہ انہیں اس حق سے محروم رکھا گیا ،ہمارے ملک میں بڑے عجیب و غریب حالات ہیں ،ہم آگے چلنا چاہتے ہیں لیکن جو جمہوریت کو جڑیں نہیں پکڑنے دینا چاہتے وہ ہمیں واپس کھینچ کھینچ کر لاتے ہیں ۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے جہاں پر عدالت عظمیٰ نے بذات خود بغیر ٹرائل کے الیکشن ٹربیونل سے ہٹ کر نا اہلیت کا کیس آیا ہو اور کسی کو نا اہل کیا ہو ۔

(جاری ہے)

عدالت نے نواز شریف کو اس بات پر نا اہل کیا کہ ان کے پاس اقامہ ہے ،وہ اگر دس ہزار ریال نہیں بھی لیتے تھے تو وہ اثاثہ بنتے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ ویسے تو 184(3)جو سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہے اس کا استعمال کیا گیاہے لیکن کیا آئین کے اندر آرٹیکل 10اے نہیں ہے جو سول اور کریمینل کیسز میں ڈیو پراسس کی بات کرتا ہے کیا نواز شریف اس ملک کے شہری نہیں جنہیں اس کا حق ملنا چاہیے تھاکیا اس ججمنٹ میں یہ نہیں بتانا چاہیے تھاکہ انہیں کیوں یہ حق نہیں دیا گیا بلکہ عدالت وہ بات بالکل کھا گئی ہے ۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میں یہ سوچتی تھی کہ یہ ایک سیاسی کیس ہے لیکن اب ججمنٹ کے بعد پوری طرح قائل ہوں کہ نہ تو اس کا پراسس ٹھیک رہا بلکہ بڑا متنازعہ رہا پھر جے آئی ٹی بڑی متنازعہ رہی اور ہاں یہ جھٹکا ججمنٹ ہے ۔ جب عدالت کی آبزرویشن آ گئی ہے تو یہ نیب میں کیا کرنے جائیں گے جب سب کچھ کہہ دیا ہے تو پھر نیب کے ذریعے کینگرو ٹرائل کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے وہ بھی فیصلہ خود ہی کر دیتے ۔

معمول کی بات یہ ہے کہ اگر یہ کرپشن اور احتساب کا معاملہ ہوتا تو نیب کو بھیجتے اورکہتے کہ اس کا فوری فیصلہ کریں او رپھر نا اہلیت کرتے لیکن پہلے نا اہل کر دیا گیا ہے اور وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا اور آپ نے چوہے پر نا اہل کر دیا اور اب آپ نے ریفرنسز بھیج دئیے ہیں اور پوری فیملی کے بھیجے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ نواز شریف کی والدہ بھی زندہ ہیں ان کا بھی اور ان کی اہلیہ کے نام بھی بھجوا دیتے ۔

یہ ایک پیغام ہے کہ اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہوں گے آپ کے ساتھ عبرتناک سلوک کیا جائے گا ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ضیاء الحق کاعکس واپس آ گیا ہے ۔ آرٹیکل 62اور 63کے اندر بہت سے تضادات ہیں ۔اگر آپ نے بد اخلاقی کی ہے تو آپ کچھ سال تک نا اہل رہتے ہیںہیں، مگر آپ اگر 63ایف میں نا اہل ہوتے ہیں تو تو آپ امین او رصادق نہیں ہیںآپ ساری عمر کے لئے نا اہل ہو گئے آپ ساری عمر کسی پارٹی کے ممبر نہیں ہو سکتے اور کجا آپ پارٹی کے سربراہ ہوں۔

اب یہ دروازے کھل گئے ہیں ،اس ملک میں بڑے عجیب و غریب حالات ہوتے ہیں، ایک پارلیمنٹ کے ممبر کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے یا ایک جج کا ہونا ضروری ہے جو کہ الیکشن لڑ کر نہیں آتا وہ اپنی انٹیگریٹی ،اپنی قابلیت پر آتا ہے اور قابلیت ججمنٹ سے نظر آ گئی ، چار ججز نے مشرف کے پی سی او سے حلف لیا تھا کیا وہ صادق او امین میں آئیں گے ،ملک میں عجیب و غریب حالات ہیں ہم آگے چلنا چاہتے ہیں لیکن جو اس ملک میں جمہوریت کو جڑیں نہیں پکڑنا دینا چاہتے وہ ہمیںواپس کھینچ کھینچ کر لاتے ہیں ۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جب احتساب اورکرپشن کو سیاست کی نظر کر دیا جائے تو یہ کرپشن کو روکتی نہیں بلکہ یہ نئے طبقے کو اس طرف لاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آیا پہلے پانچ ججز نے سنا پھر تین نے سنا پھر پانچ آئے کیا یہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے آئے تھے ۔فیصلہ سینئر موست نہیں سنایا بلکہ تیسرے سینئر موسٹ نے سنایا، پہلے تین کی وجہ اور تھی اور دو کی وجہ او ر ،پہلے دو نے بھانپ لیا تھاکہ گڑبڑ ہے اور اب تینوں نے بھی بھانپ لیا کہ پکڑ لو۔