امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی سے متعلق تقریر میں کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئی‘نئی افغان پالیسی میں کوئی واضح حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا ‘

امریکہ افغانستان میں جنگ جیتنا نہیں بلکہ شکست سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے ‘افغانستان میں امریکی فورسز کی موجودگی کے باوجودپاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہورہی ہے‘ امریکی فورسز کو اس صورتحال کی ذمہ داری لینا ہوگی ‘یہ امر واضح ہے کہ2014 میں شروع آپریشن ضرب عضب اورآپریشن ردالفساد کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں رہیں ‘ امریکہ ‘ افغانستان اور دیگر اتحادیوںکو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو براہ راست افغانستان میں امن قائم کرسکتا ہے ‘پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں اندرونی مفاہمت ہو‘ہم اس کے لئے سہولت کار بننے کے لئے تیار ہیں لیکن ضامن نہیں بن سکتے ‘ وزیر خارجہ خواجہ آصف اسی ہفتے واشنگٹن کا دورہ کرنے جارہے ہیں جو بے لاگ ڈائیلاگ کا حصہ ہے وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان کی قومی ٹیلی ویژن پر امریکی صدر کی جانب سے افغان پالیسی کے اعلان پرگفتگو

منگل 22 اگست 2017 23:02

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اگست ء) وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی سے متعلق تقریر میں کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئی‘نئی افغان پالیسی میں کوئی واضح حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا ‘ امریکہ افغانستان میں جنگ جیتنا نہیںبلکہ شکست سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے ‘افغانستان میں امریکی فورسز کی موجودگی کے باوجودپاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہورہی ہے‘ امریکی فورسز کو اس صورتحال کی ذمہ داری لینا ہوگی ‘یہ امر واضح ہے کہ2014 میں شروع آپریشن ضرب عضب اورآپریشن ردالفساد کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں رہیں ‘ امریکہ ‘ افغانستان اور دیگر اتحادیوںکو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو براہ راست افغانستان میں امن قائم کرسکتا ہے ‘پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں اندرونی مفاہمت ہو‘ہم اس کے لئے سہولت کار بننے کے لئے تیار ہیں لیکن ضامن نہیں بن سکتے ‘ وزیر خارجہ خواجہ آصف اسی ہفتے واشنگٹن کا دورہ کرنے جارہے ہیں جو بے لاگ ڈائیلاگ کا حصہ ہے‘پاکستانی قوم ‘مسلح افواج ‘قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور کامیابیاں حاصل کر کے تاریخی مثال قائم کر دی ہے ‘دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے جتنی قربانیاں دیں ہیں اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی‘دنیا ہماری قربانیوں کا اعتراف کرے، منتخب حکومتوں کے ادوار میںبین الاقوامی تعلقات میں زیادہ بہتر ی ہوتی ہے ‘پاکستان ہر قسم کا دبائو برداشت کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے ‘ ٹرمپ کی بھارت کے معاشی کردار پر بات کرنا سی پیک کا براہ راست ردعمل ہے ‘جسطرح پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات میں نئی معاشی گہرائی کو پوری دنیا نے نوٹ کیا ۔

(جاری ہے)

وہ منگل کی رات قومی ٹیلی ویژن پر امریکی صدر کی جانب سے افغان پالیسی کے اعلان پرگفتگو کر رہے تھے ۔وفاقی وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ نے تاریخ کی طویل ترین جنگ 16سال سے لڑرہا ہے ‘ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے تیسرے صدر ہیں جن کا افغانستان سے سامنا ہورہا ہے ‘ امریکی صدر کی آج کی تقریر میں کوئی نئی بات شامل نہیں تھی ‘2009میں امریکی صدر بارک اوبامہ نے جو تقریر کی تھی وہ بھی اسی نوعیت کی تھی ‘پاکستان کے بارے میں امریکی جنرلز اور صدور ایسی باتیں کرتے رہے ہیں‘ہمارا موقف بہت واضح ہے کہ جون 2014جون سے آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں رہیں ۔

وزیر دفاع نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساڑھے چھ ہزار سکیورٹی جوان شہید ‘24ہزار جوان معذور ہوئے ہیں‘مجموعی طور پر اب تک 30ہزار فوجی جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن امریکہ جدید ترین آلات ‘اسلحہ اور وسائل ہونے کے باوجود بھی کہا کہ 16سالوں کے دوران افغانستان میں اڑھائی ہزار فوجیوں کی ہلاکت اورایک ہزار ارب سے زائد کا خرچا کرچکا ہے ۔

انہوں نے کہ2014سے متحد ہو کر یکسوئی سے دہشت گردی کا مقابلہ کیا ‘عوام کی قربانیوں کا اعتراف امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکی سینٹ کام کے جنرل جوزف ووئل اور امریکی وفد کے حالیہ پاکستان کے دوروں کے دوران وزیرستان کا دورہ بھی کرایا گیا جبکہ امریکی وفود نے وزیراعظم ‘آرمی چیف سے بھی ملاقاتی کیں اور پاکستان کے کردار کی تعریف کی لیکن جب یہ وفد کابل پہنچا تو بیانیے میں تبدیلی ہوگی اور جب یہ وفد واپس واشنگٹن میں پہنچا تو بیانیہ بلکل ہی تبدیل ہوگیا ‘دراصل امریکہ افغانستان سے جیتنے کی کوشش ہی نہیں کررہا ‘شکست سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افغان پالیسی میں کوئی نئی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا جو اس سے قبل آزمایا نہ جاسکا ہو ‘امریکہ نے ایک لاکھ فوجی بھیج کر بھی دیکھ لئے ہیں ‘جو کام ایک لاکھ فوجی نہیں کرسکے کیا وہ 14ہزار فوجی کر لیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ پوری سرحد پر باڑ لگائیں ‘اس پر بہت سے وسائل لگنے ہیں ‘ پاکستان کو بار بار خطرہ ہونے پر یہ بہت ضروری ہوگیا تھا کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تانے بانے سرحد پار سے مل رہے ہیں ۔

امریکی امداد کے حوالے سے وزیر دفاع نے کہا کہ پچھلے پانچ ‘چھ سال سے جتنی بھی امر یکہ نے فوجی امداد کی ہے وہ بمشکل بلین تک پہنچے گی ‘ایک سنگین مذاق ہے عین اس وقت جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف کمٹمنٹ کو گہرا کر رہا تھا ‘اے پی ایس حملے کے بعد پاکستان میں یکسوئی آئی تھی ‘انہی سالوں میں امریکی امداد اور بین الاقوامی سپورٹ بتدریج کم ہو رہی ہے‘ 2012کے بعد تو امداد بہت کم ہو گئی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایک بے لاگ گفتگو کرنی چاہیے ‘وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دورہ امریکہ بھی اسی کی کٹری ہے ‘پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ ایک خود مختار اور پرامن افغانستان پاکستان کی اعلی سطحی خارجہ پالیسی میں شامل ہے ‘سینٹرل ایشیا تک رسائی ‘تاجکستان سے بجلی ‘ترکمانستان سے گیس اور دیگر مفادات کے لئے ہمیں پرامن افغانستان چاہیے ۔

اللہ کے کرم سے پاکستان میں یکسوئی سے منتخب حکومت کی موجودگی نے افواج پاکستان کے ساتھ ملکر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے ‘امریکیوں کو پاکستان کی فوج سے انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک خودمختار افغانستان ہمارے اور امریکہ کے مفاد میں ہے ‘جب تک سیاسی مفاہمت افغانستان کے اندر نہیں ہوتی افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن نہیں ہوسکتا ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت موجود ہے ‘منتخب حکومتوں کے ادوار میںبین الاقوامی تعلقات میں زیادہ بہتر ی ہوتی ہے ‘جسطرح کا سمجھوتہ آمریت کے دور میں ہوا اس منتخب حکومت میں نہیں ہوگا‘ ہم دبائو برداشت کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت نے پچھلے چار سالوں کے دوران روس کے ساتھ غیر روائتی تعلقات‘ چین کے ساتھ سی پیک کے زریعے معاشی کنٹکٹیوٹی سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات مستحکم کیے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آج ٹرمپ نے بھارت کے معاشی کردار کی بات ہے وہ سی پیک کا براہ راست ردعمل ہے ‘جسطرح پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات میں نئی معاشی گہرائی کو پوری دنیا نے نوٹ کیا ‘چین کے ساتھ جو تعاون قائم ہوا ہے ۔وزیردفاع خرم دستگیر خان نے کہا کہ امریکہ سنجیدگی سے چین عالمی سطح پر بیلنس کرنا چاہتے ہیں ‘اس خطے میں امریکہ کو بھارت ہی اتحادی ملا ہے یہ سٹریٹجک شپ پرا نی ہے ‘کلنٹن دور میں بھی بھارت کو نوازا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان پاکستان کا قدرتی تجارتی شراکتدار ہے ا س لئے ہمیں افغانستان کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات میں بہتری اور استحکام کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ ‘ افغانستان اور دیگر اتحادیوںکو غلط فہمی ہے کہ شائد پاکستان افغانستان میں امن براہ راست ڈیلور کرسکتا ہے ‘پاکستان خواہشمند ہے کہ افغانستان کے اندر اندونی مفاہمت ہو اس کے لئے سہولت کار بننے کے لئے تیار ہیں لیکن ضامن نہیں بن سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے ایک بڑی پالیسی کا اعلان تو کردیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکہ کا مستقل سفیر ہی نہیں ہے ۔