Open Menu

Bad Nazri Aik Mohlik Marz - Article No. 3451

Bad Nazri Aik Mohlik Marz

بد نظری ایک مہلک مرض - تحریر نمبر 3451

موجود ہ زمانے میں بد نظری صرف وہ نہیں ہے جو لوگ باہر جنس مخالف غیر محرم کو سڑکوں،بازارو ں یا کسی اور جگہ براہ راست دیکھتے ہیں بلکہ اس میں جدید تمام سوشل میڈیا، نیٹ ورکس،ٹی وی، سینماہال اور مختلف قسم کے گندے بے حیاء ایپلی کیشنز بھی شامل ہیں جس میں آج کل نوجوان بے حیائی کی ویڈیو ز دیکھتے ہیں اور پھیلاتے ہیں

Mujahid Khan Tarangzai مجاہد خان ترنگزئی پیر 1 جون 2020

آج کادور فتنوں کا دور ہے،ہر طرف گناہ کے مواقع ہی مواقع ہے اور رہی سہی کسر جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے پوری کی۔ بدکاری آسان اور نکاح مشکل ہوگیا ہے۔ ہر طرف سے انسان کو شیطان نے اپنے پنجوں میں گھیررکھا ہے۔ہر ہاتھ میں گناہ کا آلہ پہنچ چکاہے۔ مرد عورت چھوٹے بڑے،ذی عقل وبے عقل سب طبقوں کو اس شیطانی آلہ نے گناہ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اور تمام گناہوں کی بنیاد اسی آلہ سے جڑی ہوئی ہے۔

اسمیں انسان گناہ کے کام اور طریقے دیکھ کر وہی عملاً معاشرہ میں دہراتے ہیں۔ انسانی نگاہ کے بارے میں حضور کا ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ بدنظری ایک خطرناک گناہ ہے کیونکہ یہ دواعی اوردروازے کا کام کرتا ہے دیگر کبیرہ گناہوں کی طرف۔
بدنظری کے نقصانات کا اگر مختصر اًجائزہ لیا جائے توچند ہوش رُبا حقائق سامنے آتے ہیں: ایک تو یہ کہ یہ اللہ رب العزت کے حکم کی صریح نافرمانی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اورعورت دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔

(جاری ہے)

اس طریقے سے اُوپر مذکور حدیث کی روشنی میں اگر کوئی آدمی بدنظری کرتا ہے تو وہ شیطان کا آلہ کا ر بن جاتا ہے،جس کے نتیجے میں ایمان کی حلاوت سے وہ آدمی محروم ہوجاتا ہے اور کسی نیکی میں اُس کا دل ہی نہیں لگتا۔ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ آنکھیں اللہ تعالیٰ کی ایک بیش قیمت امانت ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا غلط استعمال امانت میں خیانت کے مترداف ہے۔
ہم اگر اپنی نفسیانی خواہشات پر فتح حاصل کرکے نظر کو قابو کر لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقیناً اس سے ہم وہ روحانی ترقی حاصل کرلیں گے جو مہینوں کی نفلی عبادات اور ریاضت سے بھی حاصل نہیں کرسکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اس طرح نظر کی حفاظت کرکے اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں تو ہر قدم پر ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے ہیں اور روحانیت کی منازل طے کرتے ہیں۔
ایک نوجوان نے ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر کر عرض کیا کہ آپ فرماتے ہیں کہ بد نظری سے پرہیز کرو، ”لیکن بازار میں جاتے ہوئے مجھ سے اپنی نظروں کی حفاظت نہیں ہوتی،نوجوان ہو اور بازار میں بے پردہ لڑکی کو دیکھ کر نظر اس کی طرف اٹھ ہی جاتی ہے، کیا کروں۔
۔؟؟؟“بزرگوں نے کہا کہ میں ہ راز سمجھادوں گاپہلے میرا ایک کام کرو یہ دودھ کا پیالہ فلاں بزرگ کودے کر آؤ جو بازار کے دوسرے سرے پر رہتے ہیں،لیکن ایک شرط ہے کہ پیالے میں سے دودھ بالکل نہ گرے۔۔۔ نوجوان نے کہا کہ بالکل بھی نہیں گرے گا، ان بزرگ نے کہا کہ اچھا میں ایک مضبوط سا آدمی تمہارے ساتھ کردیتا ہوں اگر دودھ کا ایک قطرہ بھی گرا تو وہ وہیں بازار میں تمہیں دو جوتے لگائے گا۔
۔
نوجوان نے کہا کہ منظور ہے، بزرگ نے ایک پیالہ دودھ کا بھر کے نوجوان کو دے دیا اور ایک آدمی ساتھ کردیا۔۔۔اب نوجوان نے بڑی احتیاط سے بغیر دودھ کو گرائے وہ پیالہ بازار کے دوسرے کونے پر رہنے والے بزرگ کو پہنچادیا،اور خوشی خوشی واپس آیا اور کہا کہ حضرت میں نے وہ پیالہ پہنچادیا ہے اب آپ مجھے نظر کی حفاظت کا طریقہ بتائیں۔
بزرگ نے پوچھا دودھ گرا تو نہیں تو اس نے کہا کہ نہیں بالکل نہیں بزرگ نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ جاتے ہوئے کتنی شکلوں کو دیکھا نوجوان کہنے لگا ایک بھی نہیں پوچھا کیوں تو اس نے جواب دیا کہ میرا سارا دھیان پیالے کی طرف تھا کہ کہیں دودھ نہ گر جائے کیونکہ اگر دودھ گرتا تو مجھے دو جوتے لگتے اور بازار میں میری رسوائی ہوجاتی،اس لیئے میرا کسی کی طرف دھیان نہیں گیا۔

بزرگ نے کہا کہ ”یہی اللہ والوں کا حال ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے دل کے پیالے پر نگاہ رکھتے ہیں اور اسے چھلکنے نہیں دیتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر گناہ کی وجہ سے پیالہ چھلک گیا،نظر بہک گئی تو قیامت والے دن سب کے سامنے رسوائی ہوگی۔اللہ کا خوف اور روز قیامت رسوائی کا اندیشہ ہوتو کبھی بھی بدنظر ی نہ ہوگی۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا ذکریا  فرماتے تھے:”بدنظری نہایت ہی مہلک مرض ہے۔
ایک تجربہ تو میرا بھی اپنے بہت سے احباب پر ہے کہ ذکر شغل کی ابتدا ء میں لذت وجوش کی کیفیت ہوتی ہے مگر بدنظری کی وجہ سے عبادت کی حلاوت اور لذت فنا ہوجاتی ہے اوراس کے بعد رفتہ رفتہ عبادت کے چھٹنے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے“۔
مثال کے طور پر اگر صحت مند جوان شخص کو بخار ہوجائے اور اُترنے کا نام ہی نہ لے تو لاغری اور کمزور ی کی وجہ سے اس کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کوئی کام کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ بستر پر پڑے رہنے کو جی چاہتا ہے۔اسی طرح جس شخص کو بدنظری کی بیماری لگ جائے تووہ باطنی طور پر کمزور ہوجاتا ہے۔ نیک عمل کرنا اس کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ا س سے عمل کی توفیق چھین لی جاتی ہے، نیک کام کرنے کی نیت بھی کرتا ہے تو بد نظری کی وجہ سے نیت میں فتور آجاتا ہے۔
حضرت مولانا خلیل احمد سہار نیوری  فرمایا کرتے تھے کہ غیر محرم عورتوں کی طرف یا نو عمر لڑکوں کی طرف شہوت کی نظر ڈالنے سے قوت حافظہ کمزور ہوجاتی ہے اس کے تصدیق کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ بدنظری کرنے والے حفاظ کو منزل یاد نہیں رہتی اور جو طلباء حفظ کررہے ہوں ان کے لیئے سبق یاد کرنا مصیبت ہوتا ہے۔
امام شافعی نے اپنے استاد امام وکیع  سے قوت حافظہ میں کمی کی شکایت کی تو انہوں نے معصیت سے بچنے کی وصیت کی۔
موجود ہ زمانے میں بد نظری صرف وہ نہیں ہے جو لوگ باہر جنس مخالف غیر محرم کو سڑکوں،بازارو ں یا کسی اور جگہ براہ راست دیکھتے ہیں بلکہ اس میں جدید تمام سوشل میڈیا، نیٹ ورکس،ٹی وی، سینماہال اور مختلف قسم کے گندے بے حیاء ایپلی کیشنز بھی شامل ہیں جس میں آج کل نوجوان بے حیائی کی ویڈیو ز دیکھتے ہیں اور پھیلاتے ہیں۔بدنظری کے یہ بدترین آلات ہیں جن کو ہم محسوس بھی نہیں کر پاتے اور گناہوں اور نقصانات کے دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی ہر طرح کی بدنظری سے حفاظت فرمائے۔آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu