Open Menu

Aqsam Hajj - Article No. 3041

Aqsam Hajj

اقسام حج - تحریر نمبر 3041

حج تین قسم کا ہوتا ہے ہر ایک کی تفصیل درج ذیل ہے:

بدھ 27 فروری 2019

مُبشّر احمد رَبّاَنی
حج تین قسم کا ہوتا ہے ہر ایک کی تفصیل درج ذیل ہے:
حج افراد:
افراد کا معنی اکیلا ہے ۔حج افراد کا شرعی معنی یہ ہے کہ حج کرنے والا صرف حج ہی کی نیت کرکے میقات سے احرام باندھے ۔اس میں عمرہ شامل نہیں ہوتا۔حج کا احرام باندھ کر ایک باریوں کہے(بخاری 213) (اے اللہ میں حج کے لیے حاضر ہو گیا ہوں )پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف (طوافِ قدوم)کرے ۔

پھر حالتِ احرام ختم کئے بغیر آٹھ ذوالحج کو حج کی ادائیگی کے لیے منیٰ کی جانب روانہ ہو جائے۔
حج افراد کرنے والا شخص اگر طوافِ قدوم کے بعد صفاومروہ کی سعی سے بھی فارغ ہو جائے تو وہ (دس ذوالحجہ کورش سے بچنے کی وجہ سے )سہولت میں رہے گا۔(ابوداؤد160/2)
مفرد پر قربانی فرض تو نہیں البتہ اگر وہ ثواب کی خاطر کر لے تو بہتر ہے۔

(جاری ہے)


حج قران:
قران کا معنی ”ملانا“ہے ۔

حج قران کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرکے میقات سے احرام باندھ لے ۔ایک مرتبہ کہے ایسا شخص عمرہ اد ا کرکے نہ حجامت بنوائے گا اور نہ احرام کھولے گا بلکہ اسی حالت میں آٹھ ذوالحج کو حج کے مناسک ادا کرنے کے لئے منیٰ کے میدان میں پہنچ جائے گا۔واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران ہی کیا تھا۔(مسلم 390/1)
حج قران کرنے والے پر ایک ہی سعی ہے ۔
اگر وہ طواف عمرہ کے بعد سعی کرکے فارغ ہو جائے تو (دس ذوالحجہ کو رش سے بچنے کی وجہ سے )سہولت میں رہے گا۔(ابوداؤد)
حج قران کرنے والے کے ذمے قربانی واجب ہے ۔اگر قربانی نہ پائے تو دس روزے رکھے ۔تین حج کے دنوں میں اور سات واپس آکر رکھے۔(بقرہ 2:196)
حج تمتع:
تمتع کا مطلب ”فائدہ اُٹھانا“ہے۔تمتع کا لفظ کبھی حج قران پر بھی اس معنی میں بولا جاتا ہے کہ دونوں ایک ہی سفر میں ادا ہو گئے۔
البتہ تمتع کا خاص مطلب یہ ہے کہ حاجی عمرہ کی نیت سے احرام باندھے اور کے (اے اللہ میں عمرہ کے لیے حاضر ہو گیا)پھر عمرہ سے فارغ ہو کر حجامت بنوائے اور احرام کھول دے ۔پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کی ادائیگی کے لئے اپنی رہائش گاہ سے دوبارہ احرام باندھے اور کہے(ایک مرتبہ )
اور منیٰ کے میدان میں پہنچ جائے۔
حج تمتع کرنے والے پر بھی قربانی واجب ہے وگرنہ حسب مذکوردس روزے رکھے۔
(بقرة 2: 196)
افضل قسم کونسی ہے؟
احادیثِ صحیحہ پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو شخص قربانی کا جانور لے کر جائے۔اس کے حق قران افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران اس وجہ سے کیا تھا کہ قربانی ساتھ لے کر گئے تھے ۔
لیکن جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو۔اس کے حج میں حج تمتع افضل ہے ‘کیونکہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو جو قربانی ساتھ لے کر نہ آئے تھے مگر قربانی کرنی تھی ‘عمرہ کے بعد احرام کھولنے کا حکم دیا تھاتا کہ ان کا حج تمتع ہو جائے۔
(مسلم 390/1)
میقات
(یعنی احرام باندھنے کے مہینے اور مقامات)
جب بحری جہا ز یلملم کے قریب ہوتا ہے تو وہ میقات کی آمد کی اطلاع کردیتا ہے ۔تب حجاج کرام احرام باندھ لیتے ہیں ‘ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔
جو حضرات ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرتے ہیں ۔انہیں چاہئے کہ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے پہلے احرام کی چادریں پہن لیں ۔لیکن احرام کی نیت اور تلبیہ یعنی (لبیک کے کلمات)اس وقت شروع کریں جب جہا زمیقات (یلملم یا جو بھی ہو)کے بالمقابل ہو جائے(جہاز میں اس کی اطلاع کر دی جاتی ہے )
اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے احرام کا لباس مدینہ سے روانہ ہوتے وقت پہن لیا تھا لیکن تلبیہ ونیت میقات (ذوالحلیفہ سے ہی کی تھی ۔
(بخاری 209/1)
واضح رہے کہ یلملم اور مکہ مکرمہ کے درمیان تقریباً ستر کلو میٹرکا فاصلہ ہے ۔
مندرجہ بالا مقامات کے اندر رہنے والے حضرات اپنی اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھیں حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں عارضی یا مستقل رہنے والے حضرات جہاں بھی رہتے ہوں ‘وہیں سے حالتِ احرام اختیار کریں گے ۔یہ حکم ان سب کے لیے ہے جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں یا عمرہ یا دونوں کا “۔
(بخاری 207/1)
احرام اور اس کے مسائل
جس طرح نمازی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں داخل ہوتا ہے ‘اسی طرح حج یا عمرہ کرنے والا احرام کی حالت اختیار کرکے حج یا عمرہ میں داخل ہو تا ہے ۔ذیل میں احرام کا طریقہ اور ضروری مسائل بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں:
احرام سے پہلے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق غسل کریں ۔(ترمذی 85/2) تیل و کنگھی کریں (بخاری 209)اور خوشبو استعمال کریں ۔
(بخاری 208) لیکن خواتین خوشبو کا استعمال نہ کریں ۔
(نسائی 276/2) جو خواتین حیض ونفاس کی حالت میں ہوں ‘وہ بھی غسل کریں اور حالتِ احرام اختیار کریں ۔(مسلم 385/1)
احرام کی الگ نماز نہیں بلکہ مسنون یہ ہے کہ کسی فرض نماز کے بعد احرام باندھیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز ادا کی اور سواری پر سوار ہوئے تو تلبیہ کہا تھا(مسلم 207/1) الغرض احرام کے لیے الگ دو نفل پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں جیسا کہ بعض لوگ اس پر زور دیتے ہیں ۔

حالتِ احرام:
مردے کے لیے احرام دو صاف ستھری چادریں ہیں جو سفید ہوں تو بہتر ہیں ۔اگر کنارے اور درمیان سے سلی ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ایک چادر کو تہبند بنالے اور دوسری چادر اوپر اوڑھ لے ۔سر اور چہرہ کھلا رکھے جو تا جیسا بھی ہو ‘پہن لے البتہ ٹخنے چھپے ہوئے نہ ہوں ۔پھر عبادت حج میں مشغولیت کی نیت کرے اور تلبیہ پڑھے۔
عورت معمول کے مطابق سادہ لباس اور صاف ستھرے کپڑے پہنے۔
کسی رنگت کی کوئی پابندی نہیں ۔
پورے جسم پر بڑی اور موٹی سی چادر استعمال کرے ۔نظر نیچی رکھے ۔غیر مردوں سے آمنا سامنا ہوتو گھونگھٹ سے چہرے کا پردہ کرے ۔اگر چہرے کے ساتھ کپڑا (اتفاقاً )الگ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج پر تھیں ۔جب آدمی قریب آئے تو ہم چادر اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اور جب گزر جاتے تو کپڑا اوپر کر لیتیں ۔
(ابوداؤد104/2)
سیّدہ فاطمہ بنت منذر فرماتی ہیں کہ سیّد ہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہم مل کر حج کرتیں تو حالتِ احرام میں غیر مردوں سے چہروں کا پردہ کرتیں ۔(موٴطا310/)
احرام کے بعد:
حج وعمرہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ احرام کی حالت اپنا لینے کے بعد درج ذیل ممنوعات سے بچے ورنہ ارتکاب کی صورت میں گنہگار ہو گا۔
قمیض ‘جبہ ‘شلوار ‘پگڑی ‘ٹوپی‘موزے پہننا۔
(بخاری209/1)
احرام کے بعد خوشبو کا استعمال کرنا۔(بخاری248/1)
دستانے استعمال کرنا۔(بخاری248/1)
نکاح ومنگنی کرنا۔(مسلم 253/1)
ہر قسم کی معصیت ‘جھگڑ ا اور بیوی سے شہوانی گفتگو یابوس وکنار کرنا۔(بقرة2:197
محرم ہویا غیر محرم حدود حرم میں شکار بھگانا‘درخت یا گھاس کا ٹنا البتہ اذخر گھاس کی اجازت ہے ۔
(بخاری247/1)
عورت کا برقعہ یا مخصوص عربی نقاب (جو چہرے پر باندھا جاتا ہے)استعمال کرنا۔
(بخاری248/1)
ناخن تراشنا۔
فدیہ:
حالتِ احرام کے بعد محرم حجامت نہ بنوائے۔اگر وہ بیماری ہو جائے یا سر میں تکلیف ہو تو حجامت بنوالے اور فدیہ ادا کرے۔
دلیل:سیّد نا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا جب کہ میرے سر کی جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا:تیری جوئیں تکلیف دیتی ہیں ؟میں نے کہا جی ہاں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا :اپنا سر منڈو ا لو اور تین روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دویا ایک قربانی ایسے جانور کی جو قربانی کے لائق ہے ۔(مسلم382/1)
محرم کے لیے پانی کے جانور کا شکار کرنا اور کھانا جائز ہے جبکہ خشکی کے جانور کا شکار کرنا منع ہے ۔ارتکاب کی صورت میں اس جانور کی مثل (صورت یا یمت میں ملتا جلتا)جانور مکہ مکرمہ میں لے جا کر ذبح کرے ۔
اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم کردے یا جانور کی جوقیمت ہو‘اس سے کھانا خرید کرمسکینوں کو کھلا دے یا جتنے مسکینوں کا کھانا بنتا ہو ‘ہر ہر مسکین کے بدلے میں ایک ایک روزہ رکھے ۔(المائدہ 5:95)
کوئی حر ج نہیں :
نہانا‘غسل کرنا(بخاری248/1)
احڑام کا لباس تبدیل کرنا۔
سریابدن کھجانا(موٴطا325/)
کپڑے دھونا۔
چھتری استعمال کرنا۔

کمربند یا پیٹی استعمال کرنا۔
بیگ لٹکانا۔
تہبندنہ ہوتو شلوار یا پاجامہ پہننا۔(مسلم373/1)
مرغی بکری وغیرہ ذبح کر نا۔
سانپ‘بچھو‘چوہا ‘چیل ‘پاگل کتا اور کوا مارنا۔اس روایت کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے ۔(بخاری 246/1)
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر 2)
(مُبشّر احمد رَبّاَنی)

Browse More Islamic Articles In Urdu