Open Menu

Hajj Bait Ullah - Muqaam Abdiyat - Article No. 3211

Hajj Bait Ullah - Muqaam Abdiyat

حج بیت اللہ مقام عبدیت - تحریر نمبر 3211

ایام حج ہی میں نہیں فرض نمازوں کے علاوہ ہر لمحہ طواف جاری رہتاہے

ہفتہ 10 اگست 2019

مولانا رضوان اللہ پشاوری
حج کے لفظی معنی”ارادہ یا قصد “ہے۔حج کا اسم الحجہ معنی”سال “ہے اسی لئے“ذوالحجہ“حج کے مہینہ کا نام ہے۔شریعت کی اصطلاح میں عبادات کی نیت سے بیت اللہ کی زیارت مناسک حج ادا کرنا مراد ہے۔لغوی معنی”زیارت“ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر حج میں)اس طرح روانہ ہوئے کہ ہم حج کے لیے(دیوانہ دار)چلاتے تھے(یعنی حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے تھے(مسلم ،مشکوٰة)
حج،اللہ سے محبت کی تکمیل،
”عبدیت “انسانیت کا نہایت افضل واعلیٰ مقام ہے ،جو اللہ تعالیٰ کے منتخب اور مخصوص بندوں کا وصف خاص ہے،اسی وجہ سے شب معراج میں رب العالمین نے رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وصف سے یاد فرمایا کلمہ شہادت میں بھی رسالت سے قبل عبدیت کا ذکر ہے ،جس سے مقام عبدیت کی عظمت واضح ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

سوال یہ ہے کہ عبدیت کی حقیقت کیا ہے؟مختصر لفظوں میں اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ عبدیت تسلیم ورضا یعنی حکم خدا اور مرضی مولیٰ کے سامنے فنائیت اختیار کرنے کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں ،عبادتوں ،ریاضتوں اور مجاہدوں کا مطلوب ومقصود یہی ہے۔
حدیث میں ہے کہ کامیابی کے ساتھ اس سفر حج سے لوٹنے والا اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتاہے کہ دھویا دھلا یا اور گویاماں کے پیٹ سے آج ہی دنیا میں آیاہو۔
روایتوں میں آتا ہے کہ کعبة اللہ پر نظر کرنا عبادت ہے ،بس نظر پڑتے ہی دل بے تاب ہو جاتاہے!جی چاہتا ہے کہ دیکھتے ہی رہیں،اس کے دیکھنے سے ایک طرف آنکھوں کا نور ،دل کا سرور بڑھتا ہے،اور دل کی بے چینی کا فور اور جسم کی تکان دور ہو جاتی ہے۔بیت اللہ کے جانب شمال بیت اللہ سے متصل قد آدم کے برابر دیوار سے زمین کا کچھ حصہ گھرا ہوا ہے اس کو حطیم اور حطیرہ کہتے ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے ذرا پہلے جب خانہ کعبہ کو قریش نے تعمیر کرنا چاہا سب نے یہ اتفاق کیا کہ حلال کمائی کا مال اس میں صرف کیا جائے۔کیونکہ سرمایہ کم تھا اس وجہ سے شمال کی جانب اصل قدیم بیت اللہ میں سے تقریباً چھ گز شرعی جگہ چھوڑدی گئی اب کچھ احاطہ زائد بنا ہوا ہے۔
دوران حج مطاف کا حال یہ ہے کہ ایام حج ہی میں نہیں،بلکہ فتح مکہ مکرمہ سے آج تک فرض نمازوں کے علاوہ دن رات کے کسی گھنٹہ یا گھڑی میں خالی نہیں رہتا،ہر آن اور ہر لمحہ مطاف میں طواف کا چکر مسلسل جاری رہتا ہے۔
حجاج بیت اللہ بھی گرمی سردی سے بے نیاز خانہ کعبہ اور اس کے مقدس مقامات سے عقیدت و عظمت میں خانہ خدا کا دیوانہ وار چکر لگاتے ہیں۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے متعلق ابن ابی رواد رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ”حج کے دوران میں نے ان کو نہ رات میں سوتے دیکھا،نہ دن میں ،بس ہر وقت طواف ،نماز یا تعلیم وتعلم میں مصروف دیکھا۔جس کسی میں عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں وہ حج سے محروم رہ جاتا ہے ،اسے حدیث میں واردوعید شدید سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں حج سے محرومی آخری وقت میں ایمان سے محرومی کا ذریعہ نہ بن جائے۔

حج کی میقات پر عبدیت کا منظر:
پھر سعادت مند لوگ حج میں منزل مقصود سے پہلے اس مرحلہ پرپہنچتے ہیں جہاں سے احرام کے بغیر گزر نا جائز نہیں ،یہاں پہنچ کر عبدیت کا منظر نظر آتا ہے کہ حج کا یہ مسافر اپنی ساری ظاہری زینت چھوڑ دیتا ہے ،خوشبو استعمال نہیں کرتا ،وہ مانوس اور سلا ہوا کپڑا نہیں پہنتا ،نہ سر پر ٹوپی اور پگڑی ،نہ جسم پر کوٹی وشیروانی ،شاہ وگدا ،رئیس ورعایا ،حکام و عوام ،نامی وعامی ،امیر وفقیر دیکھتے ہی دیکھتے سب کے ہی پوشاک ولباس اور سارے امیتازات مٹ جاتے ہیں ،کیوں کہ حج کی اس میقات سے اب سب سے بڑے مہاراجہ اور شہنشاہ مطلق کی راجد ھانی کے حدود شروع ہو گئے ہیں ،اب کوئی راجہ ہے نہ رعایا ،بلکہ سب کے سب اسی کی رعایا ہیں اور سارے کے سارے اس مالک الملک،احکم الحاکمین کے غلام ہیں،یہ ان کی غلامی کا منظر ہے:بندہ وصاحب ،محتاج وغنی ایک ہوئے تری سر کار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے سب کے بدن پر ایک ہی قسم کا کپڑا اور زبان پر ایک ہی کلمہ:
(متفق علیہ،مشکوٰة )زبانوں پر یہ صدائیں ہیں ،تو مردوں کے جسم پر دوسادہ چادریں ہیں،(مردوں کے لیے)گو یا دربار الٰہی کی حاضری روز حشر کی یاددلاتی ہے لڑنا،جھگڑنا ،شہوتوں اور خواہشات نفسانیہ میں مبتلا ہونا زندوں کا کام ہے ۔
احرام کا یہ لباس اور اس کی ساری پابندیاں بندگی اور دنیوی سے بے رغبتی کا حقیقی منظر ہے۔
منیٰ،عرفات اور مزدلفہ کا منظر:
طواف بیت اللہ کے علاوہ حج کے دیگر ارکان واعمال کی ادائیگی کے لیے حجاج بحکم خدا کعبہ کو خیر باد کہتے ہوئے /8ذی الحجہ کو منیٰ ،/9ذی الحجہ کو عرفات جہاں اپنے سارے گناہوں کا کیا جاتا ہے اعتراف ،پھر رات میں مزد لفہ اور /10ذی الحجہ کو پھر منیٰ کا رُخ کرتے ہیں ،تو وہاں کا منظر بھی نہایت پر کیف کہ بظاہر تو جنگل ہے ،جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے ،جس کی وجہ سے جنگل میں منگل نظر آتا ہے،لاکھوں کی تعداد میں حجاج و عشاق موجود! اور جسے دیکھئے وہی(مرد)دو سادہ سفید چادروں میں ملبوس !ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق فرشتوں نے آج منیٰ،عرفات ومزدلفہ کی یہ زمین بسائی ہے ،نورانی صورتیں ،ہر وقت ذکر الٰہی سے تر زبانیں اور زبان پر لبیک لبیک کی صدائیں! آج سے ہزار سال پہلے کا جو منظر حدیث میں بیان ہواآج صدیوں کے بعد بھی بحمد اللہ!حج کا وہی پر کیف منظر بیت اللہ،منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ میں نظر آتاہے،افعال حج کے یہ مناظر اور حجاج کی یہ ساری ادائیں بتلاتی ہیں کہ عشق ومحبت کی صحیح اور حقیقی حقدار صرف اور صرف وہی ذات پاک ہے جس نے ہمیں اور کائنات کے ذر ہ ذرہ کو پیدا کیا ،اگر چاہنا ہوتو اسی کو چاہو،پکارنا ہوتو اسی کو پکارو،مانگنا ہوتو اسی سے مانگو ،ماننا ہوتو اسی کو مانو ،کسی کی یاد میں سر گرداں پھر نا ہوتو اسی کی یاد میں سر گرداں پھرو!سب کچھ وہی ہے ،اور ہم سب اسی کے بندے ہیں،بندگی ہمارا مقصد زندگی ہے ،ایک بندہ کا سب سے بڑاکمال عبدیت پیدا کرنا ہے ،جس کاذریعہ عبادت ہے ،بالخصوص حج!جیسا کہ واضح ہو گیا۔
حق تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت بار بار نصیب فرمائے (آمین)

Browse More Islamic Articles In Urdu