اکتوبر کے دھرنے کو لے کر حکومتی حلقوں میں سراسیمگی موجود ہے

حکومت کو ''غیبی امداد'' کا اطمینان ہے جو حال ہی میں چئیرمین سینیٹ کی تبدیلی کے موقع پر نظر آیا تھا۔کوٹ لکھپت کی کچھ خفیہ کچھ اعلانیہ کچھ اندھیرے کچھ اجالے میں کچھ اچانک کچھ طے شدہ ملاقاتیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ غریدہ فاروقی کا حالیہ کالم

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 18 ستمبر 2019 14:02

اکتوبر کے دھرنے کو لے کر حکومتی حلقوں میں سراسیمگی موجود ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 ستمبر 2019ء) : جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دھرنے کے اعلان کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی دیکھنے میں آئی ، اس حوالے سے خاتون صحافی غریدہ فاروقی نے اپنے حالیہ کالم میں بھی بات کی اور کہا کہ اکتوبر کے دھرنے کو لے کر حکومتی حلقوں میں سراسیمگی تو ضرور موجود ہے لیکن حکومتی اراکین پارلیمان سے بات چیت میں ایک غیر محسوس اطمینان سا بھی نظر آتا ہے۔

یہ وہی ''غیبی امداد'' کا اطمینان ہے جو حال ہی میں چئیرمین سینیٹ کی تبدیلی کے موقع پر نظر آیا تھا۔ تب بھی آخری وقت تک حکومتی حلقوں میں کھلبلی تھی لیکن عمران خان کو کہیں نہ کہیں اعتماد بھی تھا اور اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی گئی تھی۔ تب بھی حکومتی اراکین پارلیمان اور تحریک انصاف کے اہم رہنما بالواسطہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے مایوس ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمان کے در پر پہنچے تھے لیکن مولانا نے حکومت کو این آر او دینے سے انکار کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

بعد میں نتیجہ کیا نکلا وہ آج تک ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ انہوں نے کہا کہ اس بار نمبر گیم پارلیمانی اراکین کی نہیں بلکہ عوام کی ہے۔ مولانا فضل الرحمان تو کہتے ہیں کہ وہ دھرنے کے لیے 15 لاکھ لوگ جمع کر لیں گے لیکن حقیقتاً یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ مولانا البتہ اگر 50 ہزار سے ایک لاکھ لوگ بھی جمع کر کے دھرنا دے دیں تو حکومت کے لیے خطرناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا چمتکار ہونا بھی کبھی ممکن ہے کہ مقتدر حلقوں کی حمایت اور پشت پناہی کے بغیر تبدیلی کی کوئی تحریک، کوئی لانگ مارچ، کوئی دھرنا کامیاب ہو جائے؟ تو کیا مولانا فضل الرحمان یہ تاریخ بدل سکتے ہیں؟ کیا مولانا کا دھرنا کامیاب ہو سکتا ہے؟ کامیابی کی صورت میں اگلا نتیجہ کیا ہو گا اور ناکامی کی صورت میں کیا ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب فی الحال خود مولانا کے پاس بھی نہیں۔

یہی وہ سوال ہے جس کے جواب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی کو کسی براہِ راست غیر جمہوری اقدام کا خطرہ ہے اور اسی لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ دونوں جماعتیں کسی بھی سیاسی تحریک کی قیادت کسی بھی مذہبی جماعت کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتیں۔ بھلے مولانا صاحب آصف زرداری کے کتنے ہی سگے دوست کیوں نہ ہوں، بلاول بھٹو زرداری کبھی اس کے حامی نہ ہوں گے۔

یہی سوچ ن لیگ میں بھی ہے۔ ان تمام عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور کچھ موسم کی بدلتی ہوا کا رخ بھی بھانپتے ہوئے فی الحال ایسا نظر آتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا یا تو منسوخ یا مؤخر ہو جائے۔ غریدہ فاروقی نے اپنے کالم میں لکھا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں صائب فیصلہ بھی یہی ہو گا کہ مولانا فضل الرحمان دھرنے کو موزوں حالات تک مؤخر کر دیں تاکہ بھرپور سیاسی جواز اکٹھا کر سکیں۔ لیکن تب تک عین ممکن ہے کہ ن لیگ کے لیے حالات اچھے خاصے ''موزوں'' ہو چکے ہوں کیونکہ کوٹ لکھپت کی کچھ خفیہ کچھ اعلانیہ کچھ اندھیرے کچھ اجالے میں کچھ اچانک کچھ طے شدہ ملاقاتیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں کہ ہو نہ ہو ''کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے''۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں