حق خودارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے ،بھارت سمیت دنیا کی کوئی طاقت کشمیر یوں سے یہ حق نہیں چھین سکتی،صدر آزاد کشمیر

جموں وکشمیر کے تنازعے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بات چیت اور ہر امن ذرائع سے حل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ،سردار مسعود خان

بدھ 9 جنوری 2019 16:57

میرپور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جنوری2019ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ حق خودارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے جسے بین الاقوامی قانون نے تحفظ دے رکھا ہے ۔ بھارت سمیت دنیا کی کوئی طاقت کشمیر یوں سے یہ حق نہیں چھین سکتی ۔ خود بھارت کا قیام حق خودارادیت کے اصول کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا وہ کشمیریوں کو اس حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے بدھ کے روز میر پوریونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے حوالے سے قومی کانفرنس سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ کانفرنس سے یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان ، پاکستان ہائوس کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا جبکہ لندن میں قائم جموںوکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ڈاکٹر نذیر گیلانی اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما بھی کانفرنس میں موجود تھے ۔

(جاری ہے)

صدر مسعود خان نے حق خودارادیت کو اقوام متحدہ کے چارٹر کا اہم حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ زندہ رہنے ، تعلیم اور صحت اوردیگر تمام انسانی حقوق نے حق خودارادیت سے ہی جنم لیا ہے اور اس اعتبار سے حق خودارادیت تمام حقوق کی ماں اور جڑ ہے جس کو نہ کوئی دوسرا چھین سکتا ہے اور نہ اس حق سے آپ رضاکارانہ یا کسی دبائو کے تحت دستبرداری اختیار کر سکتے ہیں ۔

بھارت نے 1947میں اسی خق خودارادیت کو بنیاد بنا کر آزادی حاصل کی تھی لیکن 71سال گزر جانے کے بعد کشمیریوں کو یہ حق دینے سے بھارت انکاری ہے ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کشمیر یوں کی جدوجہد جائز ، منصفانہ اور بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہے تو ہماری دلیل یہ ہے کہ کشمیر ی کوئی انوکھی چیز نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ اپنا وہ حق مانگ رہے ہیں جسے دنیا مان رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور جموں وکشمیر کے عوام مسلسل یہ زور دیتے رہے ہیں کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ سیاسی اور سفارتی ذرائع سے حل کیا جائے تو کشمیر اور پاکستان کے عوام کے سامنے دراصل وہ تحریکیں اور ان کی کامیابیاں ہیں جو انھوں نے نوآبادیاتی عہد اور نو آبادیاتی دور کے بعد سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل کیں ۔ انھوں نے کہا اکثر وبیشتر عرب اور افریقی ممالک نے سیاسی و سفارتی جدوجہد سے آزادی حاصل کی ۔

انھوں نے کہا ہمارا بھارت سے دو محاذوں پر مقابلہ ہے ۔ ایک فوجی محاذ ہے جہاں بھارت کی قابض افواج ہماری بہنوں اور بھائیوں کو مقبوضہ کشمیر میں قتل کر رہا ہے ان کی عزت و حرمت کو تار تار کیا جارہا ہے اور نوجوانوں کو پیلٹ کنوں کا نشانہ بنا کر بینائی سے محروم کر رہا ہے ۔ بھارت کی فواج کی کاروائیاں صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں بلکہ وہ لائن آف کنٹرول کے اس طرف آزادکشمیر کے شہریوں کو بھی نشانہ بناکر انھیں شہید اور زخمی کیا جا رہا ہے اور ان کی جائیدادوں کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔

پھر بھارت اپنے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام سے دو چارکرنے کے لئے بلوچستان اور دوسرے علاقوں میںپراکسی کسی وار میں مصروف ہے۔یہ جنگ دراصل پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ ہے لیکن بھارت کو اس میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ۔ دوسرا محاذ بھارت کے خلاف سفارتی محاذ ہے جہاں وہ بہت طاقتور ہے ۔ اس محاذ پر ہمیں بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے ۔

ہماری تحریک 71سالہ پرانی نہیں بلکہ یہ 180سالہ پرانی تحریک ہے جس کا آغاز 1832میں منگ ضلع پونچھ سے ہوا تھا جب پونچھ کے مسلمانوں نے راجہ گلاب سنگھ کے طالمانہ نظام حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی اور راجہ گلاب سنگھ کی فوجوں کو شکست دینے کی قریب پہنچ گئے تھے لیکن بعض وجوہات کی بناء پر یہ فتح شکست میں بدل گئی اور باغیوں کے رہنمائوں ، کمانڈروں کے زندہ جسموں سے کھال کھینچ کر ان کے جسموں کو درختوں سے لٹکا دیا گیا تھا ۔

تحریک کا دوسرا مرحلہ 1931تیسرا مرحلہ 1947اور چوتھا مرحلہ موجودہ تحریک کا ہے جو 1989سے شروع ہو کر اب تک جاری ہے۔ اس مرحلے میں نہتے کشمیری بھارت کی سات لاکھ سے زیادہ مسلح آرمی کے ساتھ لڑ رہے ہین ۔ بھارت کے ظلم و ستم پر اگرچہ دنیا میں ذیادہ ہلچل نہیں ہے لیکن اب دنیا میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں جس کا آغاز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی مقبوضی کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ سے ہوا اور اس کے بعد برطانیہ کے پارلیمنٹ میں کل جماعتی پارلیمانی کشمیر گروپ کی رپورٹ تھی جس میں بھارت کے مظالم اور اسکی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بے نقاب کیا گیا ۔

یہ سب کچھ ہماری سفارتی اور سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے جس میں بیرون ملک مقیم کشمیری کمیونٹی کا بڑا حصہ ہے ۔ انھوں نے ناروے کی وزیراعظم کی تازہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ۔صدر مسعود خان نے وزیر اعظم پاکستان اور ترکی کے صدر طیب اردگان کے مشترکہ بیان کا بھر پور خیر مقدم کرتے ہوئے کہ جموں وکشمیر کے تنازعے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بات چیت اور ہر امن ذرائع سے حل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔

میر پور میں شائع ہونے والی مزید خبریں