اداروں کوتماشہ بنائے جانے سے گریز کی ضرورت

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان کا سیاسی میدان چھوڑکربیرون ملک اپنا قیام بڑھالیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ہر بچہ اور بڑا جانتا ہے کہ اس جماعت کے لیڈر نواز شریف ہیں۔

جمعہ 3 نومبر 2017

Adaroon Ko Tamasha Banay Jaany Se Guraiz Ki Zarorat
فرخ سعید خواجہ:
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان کا سیاسی میدان چھوڑکربیرون ملک اپنا قیام بڑھالیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ہر بچہ اور بڑا جانتا ہے کہ اس جماعت کے لیڈر نواز شریف ہیں۔ بلاشبہ نواز شریف نے پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں سیاسی کام کرنے کی طرف کم توجہ دی جبکہ اپنی جماعت کی تنظیمی سرگرمیوں کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیے رکھا۔

وہ اگر ایسا نہ کرتے تو ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کیلئے نواز شریف کے خلاف سٹریٹ پاور دکھانا خاصا مشکل ہوتا۔ اس کے باوجود نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ کوچہ اقتدار سے ان کے نکالے جانے کے فیصلے کو اسلام آباد سے لاہور تک کے چار روزہ سفر میں اصل پنجاب نے ٹھکرا دیا۔

(جاری ہے)

سندھ میں میاں صاحب کے ساتھ آنے والے سردار ممتاز بھٹو ، لیاقت جتوئی ، راہو خاندان ودیگر ان کی بے اعتنائی کے باعث نہ صرف ان کا آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ گئے بلکہ مراد چانڈیو جیسے ان کے رفیق سیاسی گوشہ نشین ہو گئے۔

سید غوث علی شاہ کا روٹھ جانا بھی میاں صاحب کے تجامل عارفانہ کا نتیجہ تھا۔خیبرپختوانخواہ میں اگرچہ پیر صابر شاہ ان کے ساتھ ہیں لیکن سیاسی لحاظ سے کھڈے لائن ہیں۔ امیر مقام اچھا اضافہ ثابت ہوئے اور مسلم لیگ ن کیلئے محنت کر رہے ہیں۔ لیکن خود میاں صاحب نے خیبرپختوانخواہ کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ پنجاب میں یوں تو متعدد سیاسی افراد کو نواز شریف نے نظر انداز کیا اور مشکل دور میں ان کی وفاﺅں کا وہ صلہ نہیں دیا جو دور حکمرانی میں دیا جانا چائیے تھا۔

پنجاب کے ایک معروف گھرانے کے سربراہ چوہدری جعفر اقبال گجر اس کی واضح مثال ہیں۔ جعفر اقبال تحصیل، صوبہ اور مرکز کے پارٹی عہدیدار اور صوبائی وزیر سے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کی اہلیہ بیگم عشرت اشرف نے مشرف دور میں مسلم لیگ ن شعبہ خواتین کی صدارت سنبھالی اب میاں بیوی دونوں فارغ ہیں اور ان کی صاحبزادی زیب جعفر ایم این اے اور صاحبزادہ عمر جعفر ایم پی اے کو بھی پارلیمانی سیکرٹری تک نہیں بنایا گیا۔

غیر منتخب افراد ہی سے یوتھ ونگ کی جان میاں غلام حسین شاہد کی مثال مقام عبرت ہے۔مال و جان سے پارٹی کی خدمت کرنے والے اس شخص کو آج اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے کسی سفارش کی تلاش ہے۔ یہ سب کچھ ہوا حتی کہ پارٹی کانہ مرکزی سیکرٹری جنرل ہے اور نہ ہی پنجاب مسلم لیگ کا صوبائی جنرل سیکرٹری اس کے باوجود نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے لئے ان کا ووٹر اور سپورٹر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

نوازشریف کے مخالفین جو ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے خواہاں ہیں، ان کی دال گل سکی ہے اور نہ گل سکے گی۔ نوازشریف کی طاقت جہاں پاکستان کے عوام میں ہے وہاں ان کا خاندان بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ نوازشریف کی مزید خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کو شہبازشریف جیسا بھائی اور چودھری نثار علی خان جیسا دوست میسر ہے۔ ان دونوں کو دنیا کی کوئی طاقت نوازشریف کے خلاف کھڑانہیں کر سکتی ہاں ان دونوں ہی میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ اپنی رائے کا نوازشریف کے سامنے برملا اظہار کرتے ہیں نوازشریف ان کی رائے کے برعکس فیصلہ کر لیں تو سرتسلیم خم کر دیتے ہیں کہ آخری فیصلہ لیڈر ہی کا حق ہے۔

یہ درست ہے کہ لیڈر کے تمام فیصلہ درست ثابت نہیں ہوتے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے، نوازشریف ان سے نبرد آزما ہیں۔احتساب عدالت میں ان کے خلاف چلنے والے مقدمے میں انصاف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ 2 نومبر کو نوازشریف وطن واپس آ جائیں گے اور 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش بھی ہوں گے۔ لیکن عدالتوں کی جانب سے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستوں کو اب تک مسترد کیا گیا ہے جبکہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں اس کے برعکس فیصلے ہوتے رہے ہیں۔

جو لوگ چاہتے ہیں کہ عدالتی فیصلوں پر عوامی تنقید نہ ہو وہ اپنے طرز عمل سے خود کو اس قابل بنائیں کہ لوگ ان کی تعریف کریں۔ بلا شبہ شریف فیملی کے خلاف مقدمات میں عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے ہی سے ان کے فیصلوں کا کوئی مستقبل اور ساکھ ہو گی۔نوازشریف کو اگرچہ حکومتی منصب سے الگ ہونا پڑا ہے لیکن ملک اور سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت ہے۔

ان کے اپنے دور حکومت میں جو ادارے انہیں بے دست و پا کرنے کا تماشہ دکھاتے رہے ہیں،دراصل وہ خود بھی عوام کی نظروں میں تماشہ بن رہے ہیں۔ سینٹ کا الیکشن تین چار ماہ اور عام انتخابات سات آٹھ ماہ کے فاصلے پر ہیں ایسے میں کسی طرف سے کوئی ماورائے آئین اقدام کیا گیا تو وہ ملک و قوم کے لئے نقصان ثابت ہوگا۔ ٹیکنوکریٹ کی حکومت یا تین چار سال کیلئے عبوری حکومت کے خواب دیکھنے والے سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کریں۔

نوازشریف کا دور حکومت اگر ا±ن کے بقول ناکام ترین ہے تو اس کے خلاف عوام سے ووٹ حاصل کریں۔ عوام کے ووٹ سے ہونے والا فیصلہ سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔ جو سیاسی عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ مرکز میں نوازشریف حکومت اور شاہد خاقان عباسی حکومت نے ملک کو درپیش چیلنجز کو صحیح انداز میں مقابلہ کیا ہے اور پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت نے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں وہ یقینا آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) ہی کے ساتھ ہوں گے۔

الیکشن 2018 میں عوامی تائید سے فیصلہ اگر نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے حق میں آتا ہے تو سب کو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے اور اب آخری بات مریم نوازشریف‘ سینیٹر پرویزرشید اور سینیٹر آصف کرمانی سے متعلق ہے۔ مریم نوازشریف کو بے نظیر بھٹو شہید جیسا لیڈر دیکھنے کی خواہش رکھنے والے سینیٹر پرویز رشید بے شک مریم نواز کو بے نظیر بھٹو کی طرز سیاست کی باتیں سنائیں کہ ان کا ماضی یہی کچھ ہے لیکن ا±ن کے دست راست سینیٹر آصف کرمانی کی رگوں میں دوڑنے والا مسلم لیگی خون کیوں منجمد ہورہا ہے۔

وہ اسے جوش میں لائیں اور مریم نوازشریف کو قائداعظم کی طرز سیاست سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ قائداعظم نے کس انداز میں انگریز اور مکار ہندو کی سیاست کو شکست دی۔ انہوں نے اپنے طرز عمل اور سیاست کے ذریعے ناممکن کو ممکن کردکھایا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان جیسا ملک ابھرا۔ تصادم کی سیاست کا نتیجہ تباہی ہوگی اور قائداعظم کا راستہ فتح کی نوید ثابت ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Adaroon Ko Tamasha Banay Jaany Se Guraiz Ki Zarorat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 November 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.