امریکہ جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دے!

ٹرمپ کی افغان پالیسی․․․․․․ افغانیوں کی اکثریت کو ملک پر حکمرانی کا حق دینے سے قیام امن کا خواب شرمندہٴ تعبیر ہوگا

جمعہ 22 ستمبر 2017

America Jang Ki Bjaye Muzakrat  Ko Trjeeh Dy
رحمت خان وردگ:
بش سینئر ،کلنٹن، بش جونیئر اور اوباما امریکہ کے ایسے صدر جنہوں نے دنیا بھر خصوصاََ افغانستان میں ہمیشہ اپنی جھوٹی فتح کا پروپیگنڈا کیا جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ حقیقت میں افغانستان کی تاریخ ہے کہ یہاں پر چڑھائی کرنے والا کوئی بھی لشکر فتح یاب نہیں ہوا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نیویارک میں طیاروں کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعہ کے بعد جب امریکہ اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان پر یلغار کی تیاری کررہا تھا تو روس کے4 جرنیلوں کے بیان شائع ہوئے جنہوں نے 1979ء میں افغانستان میں اپنی لشکر کشی کی بات کی اور انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا تھا کہ اگر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے ہو تو اول تو افغانستان پر حملے کی حماقت سے باز رہو اور اگر حملہ ناگزیر ہے تو قیامت تک کبھی 1 اسیکنڈ کیلئے بھی افغانستان میں اپنی فتح کا جشن نہ منانا کیونکہ جس دن تم فتح کا جش مناؤ گے تو اس دن سے تمہاری تباہی کا آغاز ہوجائے گا لیکن افسوس امریکہ نے ان کے تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

(جاری ہے)

پاکستان کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ امریکہ صدر ٹرمپ ایسی شخصیت ہے جو ماضی کے امریکی صدروں کی طرح جھوٹ نہیں کہتا بلکہ جو اس کے دل میں ہوتا ہے وہ اس کی زبان پہ ہوتا ہے اسی لئے تو ٹرمپ نے افغانستان میں امریکہ کی شکست کا اعتراف کرلیا ہے۔ پاکستان میں ایسی سوچ رکھنے والے سراسر غلط ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی جنگ کا آغاز 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ہوا ہے۔

حقیقت میں امریکہ نے روس سے ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے کیلئے سرد جنگ کا آغاز 1976 ء میں اس وقت کردیا تھا جب پاکستان میں بھٹو کی حکومت سے کہہ کر پشاور میں افغان رہنماؤں حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے ہیڈ کواٹرز قائم کردیئے تھے حالانکہ اس وقت ایئر مارشل اصغر خان نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے اس اقدام کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قراردیا تھا۔

امریکہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک طرف بھٹو صاحب کو ایٹمی پاور پروگرام کی بنیاد رکھنے اور لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی سزا دی تو دوسری طرف افغانستان میں مستقبل قریب میں ہونے والی جنگ میں پاکستان کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کیلئے یہاں 1977 ء میں امریکہ کے ہر اشارے پر لبیک کہا، پھر دنیا نے دیکھا کہ جب 1971ء میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکی جرنیل پاکستانی قوم کو بے وقوف بنانے کیلئے تو کلمہ پڑھ کر الجہاد کے نعرے لگاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ نے دنیا بھر سے جہاد کے شوقین افراد کو افغان جہاد کیلئے مجاہدین قراردے کر پاکستان میں کیا جن میں اسامہ بن لادن بھی شامل تھا او ر ان ہزاروں جہادیوں کو امریکہ نے جنگی تربیت ، اسلحہ اور بوریاں بھر کر ڈالر دیئے اور پاکستان کی پوری قوم کو اس بات سے ڈرایا کہ روس کا اصل ہدف پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی ہے۔

جب کہ اس جنگ کے دوران روس شکست کھاکر واپس جانے کو تیار تھا اور کابل میں ترجمان حکمران مرزنجس نے پاکستان کے تمام سیاست دانوں سے کابل کا دورہ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن صرف ائیر مارشل اصغر خان نے کابل کودورہ کیا اس ملاقات میں ڈاکٹر نجیب نے واضح طور پر کہا کہ روس واپس جانے کو تیار ہے اور پاکستان افغانستان میں آکر روس کا تعاقب کرنے کی حماقت نہ کرے ورنہ اگلے 50 سال تک افغانستان اور پاکستان سے آگ اور خون کا کھیل ختم نہیں ہوگا۔

افغانستان سے واپسی پر طورخم بارڈر پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ایئر مارشل اصغر خان نے وہی پیغام دیا تو امریکی ڈالروں کی چمک کی وجہ سے ائیر مارشل اصغر خان کو روس کا ایجنٹ قرار دیا گیا،اب تقریباََ 38 سال بعد پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ ائیر مارشل اصغر خان نے درست کہا تھا ۔ امریکہ نے روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد اپنے لائے ہوئے مجاہدین کو القاعدہ پھر طالبان اوراب دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔

اور یہ سب کے سب نام امریکہ نے خود تجویز کئے ہیں اور انہیں مفاد حاصل کرنے کے بعد مجاہدین پر زمین تنگ کردی گئی ساتھ ہی ساتھ امریکی جنگ میں گزشتہ38 سال میں پاکستان ایک طرف دہشت گردی کا شکار بنا ہے تو دوسری طرف ہزاروں افسروں اور جوانوں جبکہ لاکھوں عام شہریوں کی جانوں کے نقصان کے ساتھ کروڑوں ڈالر کا نقصان، برداشت کرچکا ہے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان سے ڈومور مطالبہ اب بالکل ختم کرنا ہوگا۔

اب دنیا کو ڈومور کرنا ہوگا۔ ٹرمپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا اس وقت تک پوری دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا۔ افغانستان کے امن کیلئے ضروری ہے کہ تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے فوری طور پر نکل جائے اس کیلئے امریکہ افغان عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے رائے لے۔ افغان مسئلہ کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں۔ پاکستان نے الحمداللہ اپنی حدود میں دہشت گردوں کا چن چن کر ختم کرلیا ہے لیکن امریکہ نے افغانسان میں پاکستان دشمنوں کو پناہ دے رکھی ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ خود دہشت گردی کا سرپرست ہے جو دنیا میں جنگیں لگوا کر اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اور اپنے معاشی مفادات حاصل کرتا ہے ۔ اب ٹرمپ نے جب افغانستان میں شکست تسلیم کرلی ہے تو بہترین طریقہ یہی ہے کہ تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے فوری طور پر نکل جائے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام پر چھوڑ دیں۔ افغانستان کی اکثریت عوام پٹھان ہیں ان کی آبادی 75 فیصد سے زیادہ ہے۔

افغانستان میں اقتدار میں آنے والوں کو پٹھانوں کی اکثریت منتخب کرواتی ہے مگر افسوس کہ جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو پھر امریکہ اور بھارت کی بولی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ جس طرح حامد کرزئی اور اشرف غنی افغانستان کے عوام سے ووٹ لیکر امریکہ اوربھارت کی گود میں بیٹھ گئے۔ امریکہ اگر افغانستان میں امن چاہتا ہے تو افغانستان سے فوری طور پر غیر ملکی افواج نکال دے افغانیوں کی اکثریت کو ملک پر حکمرانی کا حق دے تو افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ پاکستان نے دنیا کے امن کیلئے بے جا قربانیاں دی ہیں اور پاکستان کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اوراب تک امریکہ ہماری قربانیوں کو نہیں مانتا جوکہ نہایت افسوس کی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America Jang Ki Bjaye Muzakrat Ko Trjeeh Dy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.