امریکہ میں غربت کے ڈیرے

خاندانی نظام سے دوری اس کابڑاسبب ہے

ہفتہ 9 جنوری 2016

America Main Ghurbat kay Deray
نعیم خان:
امریکہ میں خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکرنے والے شہریوں کی تعداد14.8فیصد ہے جبکہ 1966ء میں یہ شرح 14.7 فیصد تھی۔ اس زمانے میں امریکہ پرلندن جانسن حکمران تھے اور انہوں نے ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے ایک مہم شروع کی جوبوجوہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہی تھی۔ البتہ اس مہم کے نتیجے میں شرح افلاس میں اضافے کاعمل کسی نہ کسی حد تک منجمد ضرورہوگیا تھااور اس زمانے میں غربت کی جو شرح کم وپیش آج بھی وہی برقرارہے۔

امریکہ میں غربت کے خاتمے کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ورکنگ گروپ نے کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہاگیا کہ غریبوں کیلئے روزگار کے نئے اور بہتر مواقع پیداکرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کم تنخواہ پانے والے طبقے کوٹیکسوں میں خصوصی چھوٹ دی جائے تاکہ ان کامعیار زندگی بہتربنایاجاسکے۔

(جاری ہے)

نیزکم ازکم تنخواہ کی حد میں اضافہ کیاجائے۔

اسی طرح افرادی قوت کی صلاحیتوں سے بھرپوراستفادہ کیلئے فنی تعلیم اور تربیت دینے والے اداروں کی کارکردگی کی مرحلہ وار سالانہ بنیادوں پرجانچ پڑتال کی جائے توکہ اس بات کاتعین کیاجاسکے کہ یہ ادارے اپنے طلباء کوملازمت کااہل بنانے میں کسی حدتک کامیاب ہورہے ہیں۔ ایک تجویزیہ بھی پیش کی گئی ہے سوشل سکیورٹی یاحکومتی امداد حاصل کرنے والے شہریوں کو کام کی طرف راغب کیاجائے اور حکومتی امداد وصول کرنے والے فرد کے کام کرنے کے ساتھ مشروط کردیاجائے۔

مذکورہ رپورٹ جاری کرنے والے ورنگ گروپ میں امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے موجودتھے تاہم بعض امورپران میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ مثال کے طور پرحکمران جماعت چاہتی ہے کہ کم ازکم اجرت کی شرح کو 7.25 ڈالر فی گھنٹہ سے بڑھا کر10.10ڈالرفی گھنٹہ کردیا جائے جبکہ گروپ میں شامل دیگرلوگ چاہتے ہیں کہ اس شخص کو15ڈالرفی گھنٹہ کی حدتک بڑھانا ضروری ہے۔

کم ازکم تنخواہ کی حد میں اضافے کے مخالفین کا استدلال یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جاب مارکیٹ بری طرح متاثرہوسکتی ہے اور ملازمت فراہم کرنے والے ادارے ڈاؤن سائزنگ میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اس کالازمی نتیجہ پیروزگاری میں اضافے کی صورت سامنے آتاہے۔ تاہم ورکنگ گروپ میں اس بات پرمکمل اتفاق رائے تھاکہ معاشرے میں خاندان ی اکائی کاتصور مضبوط کیاجائے اور دونوں والدین کی اہمیت کو اجاگرکیاجائے کیونکہ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جوخاندان ماں باپ دونوں کی کفالت میں پروان چڑھتے ہیں ان میں غربت کی شرح صرف والدہ کی کفالت میں پروان چڑھنے والے خاندان کی نسبت 5گناکم ہوتی ہے۔

اسی طرح دونوں والدین کی زیرنگرانی پروان چڑھنے والے بچے صفر والدیاوالدہ کی نگہداشت میں پرورش پانے والے بچوں کی نسبت ذہنی طور پر زیادہ مستعداور فعال ہوتے ہیں۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ ایسے اقدامات اپنے معاشی ومعاشرتی مضمرات کی وجہ سے غربت کے خاتمے کی مہم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ ہے کہ شادی نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ غیرشادی شدہ جوڑوں کے پاں پیداہونے والے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے۔

سفیدفام غیرشادی شدہ امریکی جوڑوں کے بچوں کی شرح 2010ء تک 35فیصد تھی حالانکہ 1970ء میں یہ شرح محض 5.7فیصد تھی۔ ہسپانوی نسل کے غیرشادی شدہ جوڑوں کے بچوں کی شرح 1980ء میں 36.7فیصد تھی جو 2010ء میں 53.4فیصد ہوگئی تھی۔ اسی عرصے میں غیرشادی شدہ سیاہ فام جوڑوں کے بچوں کی شرح 37.5فیصد سے بڑھ کر72.1فیصد ہوچکی ہے۔ کم تنخواہ پانے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد سیاہ فا امریکیوں کی ہے کیونکہ یہ لوگ زیادہ کام کرنے پرتیارنہیں ہوتے 2013ء میں 20سے 24سال کے سیاہ فام امریکیوں کی نصف سے زائد تعداد پیروزگارتھی۔

اس صورتحال کانتیجہ یہ ہے کہ امریکہ میں خاندانی نظام میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ 35برس کی عمرتک کی امریکی خواتین 4/5تعداد شادی شدہ ہے اور ان کے بچے بھی ہیں۔ 10فیصد خواتین ایسی ہیں جوشادی کئے بغیر بچے پیداکرچکی ہیں۔ شادیاں نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ معمولی ملازمت یاکم تنخواہ پانے والے مردوں کے ساتھ بمشکل کوئی خاتون شادی کیلئے تیارہوتی ہے۔

اس کے برعکس خواتین کی تنخواہ ہوں میں اضافے کے باعث زیادہ ترخواتین بغیر شادی کئے بچے پیداکرنے اور ان کی پرورش کرنے کوترجیح دیتی ہیں اور یوں سنگل پیرنٹ خاندان بڑھ رہے ہیں اور ان کے بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہتے جارہے ہیں اوریوں غربت کامنحوس چکر ہمیشہ چلتارہتاہے۔ غربت کے خاتمے کیلئے امریکہ کی مہم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ غربت کایہی چکرہے جوتاحال برقرار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America Main Ghurbat kay Deray is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 January 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.