ایٹمی ہتھیاروں کا مستقبل اصل امتحان!

بقائے باہمی کے جذبے کے تحت شمالی کوریا کے صدر کے اعلان پر چین روس سمیت دنیا بھر کے ممالک میں پذیرائی ،چینی خبر رساں ایجنسی اور پیپلز ڈیلی کی جائزہ رپورٹ میں ماہرین کا اظہار خیال

ہفتہ 5 مئی 2018

atomi hathyaaron ka mustaqbil asal imthehaan
شمالی کوریا کے صدر کم یانگ کاجنوبی کوریا کے ساتھ تنازعات دور کرنے کیلئے دنوں ملکوں کو تقسیم کرنے والی سرحد عبور کرنے کا اقدام بلاشبہ اقوام عالم کے لئے حالیہ دنوں کا سب سے اہم واقعہ ہے، کیونکہ اس فیصلے کو خطے میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں صدر کم یانگ نے حریف سمجھے جانے والے ملک امریکہ کو اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے اور باقاعدہ دورہ کر کے واشنگٹن میں مذاکرات کی پیشکش بھی کی ہے۔

(جاری ہے)

عوامی جمہوریہ چین جسے شمالی کوریا کا سب سے بڑا حریف سمجھا جاتا ہے اس سمیت اقوام متحدہ ، جاپان ، روس اور دنیا کے دیگر ممالک نے بھی شمالی کوریا کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ مختلف ممالک کے ذرائع ابلاغ اس پیش رفت پر تبصرے شائع اور نشر کررہے ہیں اس دوران چین کی خبررساں ایجنسی زینہوا نے بھی اس پر ایک جائزہ رپورٹ پیش کی ہے۔

 

رپورٹ میں جزیرہ نما کوریا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہان کے درمیان ہونے والی آئندہ ملاقات باہمی تنازع کے ہاتھوں خودکسی انتہا تک جا پہنچنے کی بجائے اسے ختم کرنے کی جانب اہم پیش قدمی ثابت ہو گی۔

واشنگٹن میں امریکی تجزیہ نگار کے حوالے سے جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر کم یانگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے کے درمیان 27 اپریل کو جنوبی حصے میں واقع گاؤں میں ہونے والی ملاقات جزیرہ نما کوریا کے لئے ایک مثبت اقدام ہے۔ تجزیہ نگار کے مطابق اس ملاقات کو ممکن بنانے میں سفارتی سطح پر ہونے والی کوششوں میں موسم سرما میں ہونیوالی اولمپکس کے انقعاد اور خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے میں دوطرفہ خلوص نیت بطور خاص کارفرما رہاہے۔

ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا کے بارے حالیہ مہینوں میں اس کے دور تک مار کرنیوالے میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے متعدد بار توہین آمیز بیانات جاری ہوتے رہے ہیں۔ مگر شمالی کوریا کے صدر کم یانگ کے ہفتے کے روز اس میزائل پروگرام کو روک دینے کے اعلان نے اس کی خلوص پر مبنی کوششوں کے ذریعے اعتماد بحال کر کے مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے۔

 

سینٹر فار سٹڈی آف پریذیڈنسی اینڈ کانگرس کے ڈائریکٹر اور سینئر وائس پریذیڈنٹ ڈین ماہافی نے زینہوا نیوز ایجنسی سے بات چیت میں واضح کیا کہ دونوں ملکوں کی قیادت نے جزیرہ کوریا میں پائے جانے والے تنائو کو کم کرنے میں اولمپکس کھیلوں کے انعقاد نے بطور خاص کردار ادا کیا ہے۔

کوریااکنامک انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن میں غیر منافع بخش پالیسی ریسرچ ادارہ ہے جس کے سینئر ڈائریکٹر ٹرائے سٹینگرون کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا سہرا چین جیسے متعلقہ ممالک کے سر جاتاہے جس نے دونوں ملکوں کے سربراہان کے درمیان آئندہ ملاقات کے لئے ایسا سازگارماحول مہیا کیا جس کی اس کیلئے اس کی بے حد ضرورت تھی۔ اُن کا کہنا تھا پیانک چانگ میں آئندہ ہونے والے اولمپکس نے ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا کو ان مذاکرات کی طرف دھکیلا ہے اس کے بغیر دنیا آج جس مقام پر کھڑی ہے یہ ممکن نہ تھا۔

 

امریکی رینڈ کارپوریشن کے سینئر پولیٹکل ماہر میخائل جے میزر کا کہنا ہے اس ملاقات میں شمالی کوریا کے صدر کی خواہش کا خاص دخل رہا ہے جس کے تحت وہ خطے میں امریکہ اور اس سے آگے بڑھ کر جنوبی کوریا سے تعلقات بہتر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امریکی سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں اچھے تعلقات کے لئے جنوبی کوریا کے صدر کی احتیاج بھی کارفرما رہی ہے۔ میرے خیال میں کسی خاص مہم کے تحت کسی ہدف سے متعلق اوقات پر تو ممکنہ حد تک اثرانداز ہوا جا سکتاہے مگر اس سے شمالی کوریا کے صدر کے بنیادی تصورات تبدیل نہیں ہوئے۔ صاف ظاہر ہے سربراہی ملاقات تبدیلی کے بغیر ممکن نہ تھی جبکہ جنوبی کوریا کے صدر مون جے نے بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کے مقابلے میں تبدیل شدہ راستہ اختیار کیا ہے۔

ڈین ماہافی نے دونوں ملکوں میں مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ شمالی کوریا کو تنائو کی صورتحال سے نکلنے کے لئے اپنے نیوکلیئر میزائل پروگرام کو بند کرنا ہو گا۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے سربراہان کس طرح مل کرکام کرتے ہیں جس سے کم یانگ اور امریکی صدر ٹرمپ کے مابین ہونے والی ملاقات کااہتمام ہو سکے، اس ضمن میں وسیع تر اثرات پیش نظر رکھنا ہوں گے۔

سٹینگرون کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں صدر کم اور صدر مون کے درمیان ملاقات مسئلے کے حل کی بجائے اس سمت میں کارروائی کا آغاز ہو گا۔ دونوں کوریائی ممالک کے لئے بے حد ضروری کام خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے۔ اس بارے میں ایسی اطلاعات بھی پائی جاتی ہیں جن کے مطابق دونوں ملکوں کے حکمران کوریا جنگ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کرنے والے ہیں۔

اس دوران شمالی کوریا کی جانب سے ہتھیاروں کے خاتمے کے جواب میں اس کی طرف سے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ بھی ایک چیلنج ہو گا۔ رینڈ کارپوریشن کے سیاسی ماہر کے مطابق یہ ملاقات ایٹمی ہتھیاروںکو ختم کرنے کی قیمت پر ہو گی اوردیکھنا ہو گا آیا یہ پہلی ڈیل طے پاتی ہے یا نہیں۔ 

اس عام صورتحال میں تمام فریقین کے لئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وہ علاقائی سطح پر سیاسی و سفارتی لحاظ سے اس جزیرہ میں ایک بڑے تصفیہ کی جانب واضح سوچ رکھتے ہیں۔

رنیڈ کارپوریشن کے مبصرکے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے لئے یہ اہم سوال ہو گا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کی تصدیق کے بغیر اسے کیونکر قبول کرے گا اور اس سلسلے میں وہ دونوں ملکوں سے مذاکرات سے قبل جنوبی کوریا کو کیا سبق پڑھاتا ہے۔ سٹینگرون نے نیوز ایجنسی سے بات چیت میں واضح کیا ہے کہ آغاز میں دونوں ملکوں میں ہونے والے مذاکرات میں تعلقات کی بحالی مشکل ہو گی اور اقتصادی پابندیوں کا سلسلہ بھی برقرار رہے گا۔

جس کے باعث جنوبی کوریا اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کوریا کو بہتر تعلقات کے حوالے سے نئے امکانات پر مبنی کوشش کو بروئے کار لانا ہو گا۔ اس دوران سب سے اہم ہدف امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ہونے والی سربراہی ملاقات کے لئے فضا کا سازگار بنانا ہے۔ میزر کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کے مسئلے پر اگر دونوں ملک خاکہ تیار کر لینے میںکامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے درمیان مذاکرات سے اہم ترین اثرات مرتب ہوں گے۔

جس سے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ شمالی کوریا کے صدر کم یانگ کی ملاقات خصوصی اہمیت اختیار کر جائے گی۔ اگرچہ جنوبی کوریا سے امریکہ کے لئے خلاف معمول کوئی توقع نہیں باندھی جا سکتی تاہم خطے میں روایتی ہتھیاروں کی دوڑ کے حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ سربراہی اجلاس میں ڈرامائی طور پر اس میں کمی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ 

چائنا ڈیلی نے بھی اپنے تبصرے میں واضح کیا ہے کہ شمالی کوریا کے اقدام کو کوئی معمولی فیصلہ سمجھ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔

صدر کم یانگ نے مسئلے کے سیاسی حل کی پیشکش کی ہے جس کا روس اورچین نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔ ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا نے بین البراعظمی میزائل پروگرام کوروک دینے کا اعلان کر کے دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔ شمالی کوریا کے صدر کم یانگ نے یکے بعد دیگرے اقدامات کے سلسلے میں شروعات کرتے ہوئے شمالی اور جنوبی کوریا میں 30 منٹ کے فرق کو دور کر کے 5 مئی سے دونوں حصوں میں نظام الاوقات کو یکساں کرنے کابھی اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد دونوں ملکوںکا معیاری وقت کوریا وارسے پہلے کے دور کے مطابق ہو جائے گا۔ (زینہوا نیوز، پیپلز ڈیلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

atomi hathyaaron ka mustaqbil asal imthehaan is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 May 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.