عورتوں کا عالمی دن صرف جشن منانے کا ہی نام نہیں

نام نہاد این جی اوز،مذہب سے آزاد عورتوں کے مخصوص ٹولے نے ویمن مارچ کا مفہوم ہی بدل دیا

پیر 8 مارچ 2021

Aurtoon Ka Aalmi Din
بشریٰ شیخ
8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین کا انعقاد،اس کی اہمیت کے پیش نظر تقریباً پوری دنیا میں ہوتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک میں آزادی نسواں کے نام پر نام نہاد این جی اوز اور روشن خیال مذہب سے آزاد عورتوں کے مخصوص ٹولے نے خواتین مارچ کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے انہوں نے عورت کے حقوق و فرائض کو پس پشت ڈالتے ہوئے عورت کے جسم،لباس اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کو ہی دنیا کی نصف آبادی کا نعرہ قرار دے دیا ہے۔

ان شرمناک نعروں سے عالمی یوم خواتین کا استقبال کیا جاتا ہے جو یقینا اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان باعث ندامت اور محب الوطن پاکستانیوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مرد اساس سماج اور معاشرے میں خواتین کو جو حقوق اور انصاف ملنا چاہئے تھا،وہ اب تک نہیں ملا۔

(جاری ہے)

مردوں کی برتری حاصل شدہ سماج میں ،خواتین کے اندر اپنے ساتھ ہو رہے ظلم،تشدد اور استحصال کے خلاف،آواز بلند کرنے کی پہلے ہمت تھی،نہ حوصلہ تھا اور نہ ہی جرات تھی۔

لیکن 8 مارچ عالمی سطح پر وہ اہم تاریخی دن ہے،جب امریکہ کے ایک کپڑا مل میں مزدور خواتین نے کام کے اوقات کو سولہ گھنٹے سے دس گھنٹے کرنے اور اجرت بڑھانے کیلئے پہلی بار صدائے احتجاج بلند کی تھی،اعتراض اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور آخر کار ان مزدور خواتین کو 1908ء میں جدوجہد کا صلہ ملا۔
8 مارچ 1915ء کو اوسلو (ناروے)کی عورتوں نے پہلی عالمی جنگ میں انسانی تباہی و بربادی بھی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

8 مارچ 1917ء کو روسی خواتین نے امن اور بقائے باہمی کے لئے آواز بلند کی تھی۔دھیرے دھیرے یہ 8 مارچ عالمی سطح پر خواتین کے لئے حق، خود اختیاری اور عزت و افتخار کے پیغام کا دن بن گیا اور مسلسل خواتین کے پُر زور مطالبات نے اقوام متحدہ کو آخر کار مجبور کر دیا اس نے خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے 8 مارچ 1975ء سے 8 مارچ 1985ء تک عالمی خواتین دہائی کا اعلان کیا کہ اس دہائی میں عالمی سطح پر خواتین کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک،ظلم،تشدد،بربریت،استحصال اور نا انصافی کو ختم کر انھیں حقوق انسانی کا تحفہ دینے کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح کی ترقی و رفتار میں شامل کیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے بہت ساری کوششیں ہوئی ہیں۔جان اسٹوارٹ مل جیسے مفکر نے انسانی آزادی کے تصور کو ظاہر کرتے ہوئے حقوق نسواں کی طرف داری کی اور سچ کو سچ کہنے کیلئے حوصلہ اور جرات کو وقت کی ضرورت بتایا تھا۔1967ء کے بعد 1980ء میں کوپ ہینگن میں دوسرا بین الاقوامی خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور 1985ء میں نیروبی میں خواتین کی ترقی کیلئے بہت ساری پالیسی اور حکمت عملی تیار کی گئیں۔

1992ء میں خواتین اور ماحولیات کا جائزہ لینے کیلئے اس بات کو بطور خاص نشان زد کیا گیا کہ خواتین اور ماحولیات،ان دونوں پر تباہی کے اثرات نمایاں ہیں۔لہٰذا ماحولیات کے تحفظ میں خواتین کی حصہ داری کی اہمیت کو بطور خاص سمجھا جائے۔1993ء میں یوم خواتین کے موقع پر انسانی حقوق پر منعقدہ،ویانا عالمی کانفرنس میں حقوق نسواں کے مدعے کو حقوق انسانی کی فہرست میں شامل کیا گیا اور خواتین پر ہو رہے تشدد اور استحصال کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کا اعلان کیا گیا۔

1995ء میں منعقد چوتھے عالمی خواتین کانفرنس میں خواتین کے وجود اور ترقی میں رکاوٹ بن رہے نکات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور ان کے سدباب کیلئے ”پلیٹ فارم برائے ایکشن“ اپنایا گیا۔جس پر پوری دنیا میں بہت سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا۔
8 مارچ کو 29 ممالک میں سرکاری طور پر چھٹی کا دن ہے۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ان میں زیادہ تر ممالک وہ ہیں جن کی سرمایہ داری مخالف تاریخ ہے ان ممالک میں چین،کیوبا،ویت نام،سابقہ سوویت یونین کی ریاستیں،مشرقی یورپ اور افریقہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔

امیر ترین قومیں جن میں نارتھ امریکہ،یورپین ممالک اور آسٹریلیا شامل ہیں،اس دن کو تسلیم نہیں کرتیں۔یہ ایک اہم بات ہے کہ مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی اور عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ دونوں کو اس لئے عالمی سطح پر منایا جاتا ہے کہ امریکی محنت کشوں نے ان دونوں دنوں پر مختلف جدوجہد کا آغاز کیا تھا مگر امریکہ میں ہی ان دونوں دنوں کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

8 مارچ کا آغاز جفاکشی سے ہوا تھا۔یہ محنت کش عورتوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے منایا جاتا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ 8 مارچ 1857ء کو نیویارک سٹی میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبہ میں کام کرنے والی مزدور عورتوں کی ایک بڑی جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔یہ وہی سال ہے جب برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔دو سال بعد جدوجہد کرنے والی عورتوں کو یونین سازی کا حق مل گیا تھا۔

یہ عورتیں زبوں حال حالات کار،کم تنخواہوں اور 12 گھنٹے کام کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
پاکستان میں یہ سب کچھ آج بھی ہو رہا ہے اور عورتیں 16 گھنٹے سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں۔مگر انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔8 مارچ 1908ء کو سوشلسٹ عورتوں نے نیویارک میں 15 ہزار عورتوں کا ایک مظاہرہ منظم کیا،ان کا مطالبہ تھا کہ تنخواہیں بڑھائیں جائیں،اوقات کار کم کیے جائیں،ووٹ کا حق دیا جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔

اس روز کے بعد سوشلسٹ پارٹی امریکہ نے فیصلہ کیا کہ امریکہ میں آٹھ مارچ کو عورتوں کا دن منایا جائے گا،اس طرح پہلی دفعہ 8 مارچ 1909ء کو اس دن کو منایا گیا۔8 مارچ 1911ء کو 10 لاکھ سے زائد محنت کشوں اور عورتوں نے جرمنی،آسٹریلیا،ڈنمارک اور سوئٹزر لینڈ میں مظاہروں میں شرکت کی۔اس روز کو منانے کا ایک اور جواز 25 مارچ 1911ء کو نیویارک کی ٹرائی اینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں ہونے والے ایک واقعہ سے نظر آیا۔

فیکٹری میں آگ لگ گئی اور مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے 146 محنت کش آگ میں جل کر ہلاک ہو گئے۔ان میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔یہ ایک عالمی سکینڈل بن گیا اور جس کی وجہ سے انٹرنیشنل لیڈیز گارمنٹ ورکرز یونین کا قیام عمل میں آگیا۔یہ امریکہ کی پہلی عورت یونین تھی جو امریکہ میں بڑی یونینوں میں شمار ہو گئی۔14-1913ء میں جب پہلی عالمی جنگ عظیم کی شروعات کے آثار نظر آرہے تھے۔


یورپ میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر لاکھوں افراد نے امن کیلئے مظاہرے کئے۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز اگست 1914ء میں ہوا۔ جس کی وجہ سے اگلے سات سال سرمایہ دار ممالک اور یہاں پر موجود سوشلسٹ پارٹیوں نے 8 مارچ کو نہ منایا اور اس دن کو دبا دیا گیا تاکہ عورتوں کی عالمی یکجہتی نہ بن سکے اور وہ اپنے اپنے ممالک کی سرمایہ دار حکومتوں کی جنگی کوششوں کی حمایت کر سکیں۔

8 مارچ 1917ء کو عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر روس کی عورتوں نے کمال کر دکھایا۔اس کی کہانی سوویت یونین کے سوشلسٹ انقلاب کے معمار لیون ٹرانسکی نے اپنی تاریخی کتاب” روسی انقلاب کی تاریخ“ میں بیان کی ہے۔عورتوں نے سرکشی کا آغاز کیا اور بہت مضبوط ترین زار شاہی آمریت کا خاتمہ کر دیا اور صرف آٹھ ماہ بعد بالشویک سوشلسٹ انقلاب کامیاب ہو گیا۔

پیٹرز برگ کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتیں غصہ میں تھیں کیونکہ خوراک کی قلت تھی اور جنگ میں لاکھوں روسی مارے جا چکے تھے۔ عورتوں نے ہڑتال شروع کر دی اور دوسری فیکٹریوں کے مزدوروں کو ساتھ شامل ہونے کو کہا۔ہڑتال اور مظاہرے پہلے روز سے ہی بڑھنے لگ گئے اور 5 دنوں میں زار شاہی حکومت کا دھڑن تختہ ہو چکا تھا۔عورتوں کا عالمی دن صرف جشن منانے کا ہی نام نہیں یہ جدوجہد کا تجدید عہد بھی ہے۔عورتوں کے انقلابی کردار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے آٹھ مارچ کا دن عورتوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aurtoon Ka Aalmi Din is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2021 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.