بچے درندوں کے رحم وکرم پر کیوں؟

معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ ،ظلم وزیادتی اور بچوں کے مستقبل کس خطرے سے دوچار ہے اس سے کسی کوکوئی سروکار ہی نہیں ہے

Atiq Chaudhry عتیق چوہدری جمعہ 20 دسمبر 2019

bachay darindon ke rehmo karam par kyun ?
معصوم پھول جیسے بچوں ،کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ،تشدد اوراغواکے بعد زیادتی وقتل جیسے واقعات میں روزبروزاضافہ ہورہا ہے ۔بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق 2017 کے مقابلے میں 2018 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔
2017 میں ایسے واقعات کی تعداد 3445 تھی جبکہ 2018 میں یہ بڑھ کر 3836 ہوگئی ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق روزانہ اوسطا 10 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ تلخ حقائق پر مبنی یہ اعدادوشمار رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں مگر بدقسمتی سے حکمران صرف بھاشن دینے ، قوم کوسبزباغ دکھانے ،عوام نعرے لگانے اور بھیڑ بکریوں کے ایک ریوڑ کی طرح ان کے پیچھے چلنے ،ادارے شائنگ سٹار بننے کی دوڑ میں مصروف ہیں ۔

(جاری ہے)

میڈیا کے پالیسی میکرز کووہ مصالحہ دار ایشوزچاہئے جوریٹنگ دے سکیں۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ ،ظلم وزیادتی اور بچوں کے مستقبل کس خطرے سے دوچار ہے اس سے کسی کوکوئی سروکار ہی نہیں ہے ۔بچوں سے زیادتی اورتشدد جیسے کیسزمیں مسلسل اضافہ قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے اور خالی کھولی نعروں اور دعووٴں کی حقیقت کی قلعی بھی کھولتا ہے کہ عوام کو کس طرح بیوقوف بنایا جارہا ہے جبکہ عملی تصویر بہت بھیانک ہے ۔

معاشرے کے افراد جب جنسی گھٹن یاجنسی دباؤ کاشکار ہوں وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی وتشدد اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔سب سے اہم سوال یہ کہ ان واقعات کاتدارک کیسے ہو ؟
 ریاست کون سے اقدامات کرے کہ ایسے افسوسناک واقعات کم ہوسکیں ؟ من حیث القوم ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟ حکومت وقانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ذمہ داریاں کیاہیں ؟ ان واقعات کو روکنے میں والدین کا کردار کتنا ضروری ہے ؟ معاشرے کے عمومی مزاج کے مطابق ہم ہر بات حکومت پر ڈال دیتے ہیں مگر بچوں کے ساتھ ایسے واقعات میں جو والدین کا قصور ہے ان کو اس سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا کے والدین نے اپنے بچوں کو تربیت دی ہے کہ وہ ایسے واقعات سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ کیا والدین کے اپنے بچوں کے ساتھ اتنے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں کہ وہ ہر طرح کی بات ان سے شئیر کریں یا گھر میں ڈروخوف کا ماحول ہے؟ زیادہ ترواقعات میں سب سے خوفناک پہلویہ ہے کہ بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والا شخص یا توقریبی رشتہ دار،محلہ دار، استاد،ڈرائیوریاگھر کاملازم نکلاہے اور اس سے بھی ہولناک بات خونی رشتہ دار بھی ایسے واقعات میں ملوث نکلے ہیں ۔

ایک اور وجہ چائلڈلیبر بھی ہے بہت سے بچے ہوٹلوں ،مکینک کی دکانوں ،چائے کے ڈھابوں پر ویٹراور برتن مانجھنے ،ڈنٹنگ پنٹنگ ،چھوٹے کارخانوں ،دُکانوں اور ٹھیلوں پر مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ان جگہوں پر ان بچوں کو جسمانی وجنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ ایسا تشدد ہے جوکسی بھی جگہ پر رپورٹ نہیں ہوتا ۔ حکومت اور سرکاری ادارے چائلڈ لیبر پر پابندی کے دعوے توبہت کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

بٹھوں پر کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے حکومت نے کچھ اقدامات کئے بھی ہیں مگر یہ کافی نہیں ہیں بہت کچھ کرناابھی باقی ہے ۔ایک اور توجہ طلب پہلوملک میں کروڑں بچے ایسے ہیں جنہیں تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات تودرکنار دووقت کی روٹی اور چھت بھی نصیب نہیں ہے 
۔افراط وتفریط کی چکی میں پسنے والے بچوں کا پرسان حال کون بنے گا؟ جن کواقبال نے اپناشاہین کہا تھا ان شاہینوں کا بچپن ولڑکپن محفوظ کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری نہیں ہے ؟اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ،اسکول نہ جانے والے بچوں کے لحاظ سے دنیاکا دوسرا بڑا ملک ہے ۔

پانچ سے سولہ برس کی عمر کے اندازہ 22 ملین بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پانچ ملین بچے پرائمری تعلیم سے آگے داخلہ نہیں لیتے ۔ان بچوں کوتعلیم دیناریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25اے کے مطابق 5 سے 16 سال کے طلبا کو لازمی اور فری تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر دستور پاکستان کے اس اہم آرٹیکل پر عملدرآمد نہیں ہورہا ۔

مذکورہ آرٹیکل پر عملدرآمد میں وفاقی وصوبائی حکومتوں کی ناکامی کے باعث دستور پاکستان کے آرٹیکل 8 اور 25 کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔اقوام متحدہ( UN )کے بچوں کے حقوق کے حوالے سے کنوینشن کے مطابق دنیاکا ہر بچہ اپنی بقا،تحفظ ،ترقی اور شمولیت کاحق رکھتا ہے ۔مگر پاکستان میں اس وقت 80 ملین بچے آبادی کاحصہ ہے جوبنیادی ضروریات زندگی کے حصول کاحق رکھتے ہیں مگر ان میں سے صرف 20 فیصد بچے یہ سہولیات رکھتے ہیں جبکہ 80 فیصد بچے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔

فوری طور پر یہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس کینسر کو روکا جاسکے ۔سخت قسم کے قوانین بنائے جائیں اور ان پر عملدرآمد کو ہر صور ت یقینی بنایاجائے کیونکہ قانون کاخوف جرائم کے سدباب کااہم ذریعہ ہے ۔
چائلڈ لیبر پر مکمل پابندی لگائی جائے اور قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے ۔معاشرے میں صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے پارک بنائے جائیں اور کھیلوں کے میدان آباد کئے جائیں تاکہ معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کا فروغ ہو ۔

تیسرا کام اسکولوں میں والدین اور بچوں کے درمیان خلاکو کم کرنے کے لئے تربیتی نشستیں منعقد کی جائیں اور والدین کو محلوں میں آگاہی مہم، اچھے برے کی تمیز سکھانے کابندوبست کیا جائے ۔بچوں کوحفاظتی تدابیر سے آگاہ کریں تاکہ وہ کسی کے بھی لالچ میں نہ آئیں ۔کیونکہ اکثرواقعات میں بچے کوکسی چیزکا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے یا پیسوں ،گفٹ کا لالچ دے کر پھانساجاتا ہے۔

چونیاں کے افسوناک واقعہ کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مجرم پیسوں کا لالچ دیکر بچوں کوورغلاکراپنے ساتھ لے جاتا تھا ۔معاشرے میں حساسیت پیداکرنی ہوگی اور اس لعنت سے چھٹکارے کے لئے سکولوں ،کالجوں ،مساجد،کمیونٹی سینٹرز،خاندانوں اور معاشرے کی سطح پر ایک منظم آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیاکواصلاح احوال اور معاشرہ میں آگاہی پیداکرنے کے لئے پروگرام نشر کرے ۔

اس کے علاوہ بچوں کوموبائل فون ،سوشل میڈیاکا مثبت استعمال کرنے کاطریقہ سیکھایاجائے تاکہ وہ اس کے منفی اثرات سے بچ سکیں بلخصوص انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی بلیک میلنگ سے متعلق تربیت کی جائے اور سائبر کرائم قوانین کو کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو بتایا جائے اور ان کے والدین کو اس مہم میں شامل کیاجائے ۔علاقائی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جس میں ماہرین نفسیات ،ڈاکٹرز،قانون دان، ماہرین تعلیم ،پولیس و انتظامیہ ،تمام مکاتب فکر کے علما کرام شامل ہو۔

یہ کمیٹیاں مقامی سطح پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کویقینی بنائیں اور لوگوں کوآگاہی بھی دیں ۔چوکیداری نظام کو فعال کیاجائے اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کواس میں ذمہ داریاں دی جائیں ۔سب سے بڑھ کر ایسے افسوسناک واقعہ ہونے کے بعد فورا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک ہوناچاہئے بدقسمتی سے وہ اپنا فرض ایمانداری سے بروقت ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے مجرم کوچھوٹ ملتی ہے تو وہ مزید بچوں کے ساتھ درندگی کرتا ہے کیونکہ اس کوسزا کاتوڈر نہیں ہوتا ۔

کیونکہ مجرم جب فطری ،اخلاقی اور سماج کے دباؤسے ماورا ہوجائے اور اس کوخوف خدا بھی نہ رہے تو ایسے لوگوں کونشان عبرت بنانا بہت ضروری ہوتا ہے ۔زینب واقعہ کے بعد معاشرے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی وقتل کے واقعات کے خلاف آواز اٹھی ہے مگر واقعات میں کمی کیوں نہیں آئی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں مل رہا ؟نظام انصاف میں بہت سے سقم موجود ہیں جس کی وجہ سے مجرم کیفر کردار تک پہنچنے سے پہلے چھوٹ جاتا ہے ،ان سقم کودورکرنا بہت ضروری ہے ۔

کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دینابھی اس سلسلے میں معاون ومددگارہوگا ۔
چونیاں میں چار بچوں کے اغوا وزیادتی کے واقعہ کے بعد حقائق تک رسائی کے لئے چونیاں میں جاکر تمام بچوں کے والدین ،اہل علاقہ، انتظامیہ ،پولیس افسران سے تفصیلی گفتگو کے بعد یہ بات سامنے آئی کے اگر پہلے بچے کے اغوا کے بعد اگر پولیس ایکشن میں آجاتی تو دوسرے بچوں کوبچایا جاسکتا تھا مگر پولیس نے روایتی غفلت ،نالائقی اور نااہلی کا ثبوت دیاجس کی وجہ سے وہ ایک مجرم بار بار بچوں کوورغلاکر لے جاتا اور درندگی کے بعد بے رحمی سے قتل کرکے پاس ویرانے میں پھینک دیتا ۔

پولیس اور حکومتی ادارے اس وقت حرکت میں آئے جب سوشل میڈیا پر شور مچااور اہل علاقہ نے بھرپور احتجاج کیا تو حکومت نے ہوش کے ناخن لئے مگر اس وقت تک وہ ظالم درندہ 5 بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کر چکاتھا ۔کاش انتظامیہ ہر واقعہ کے بعد اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود ہر ممکن سطح پر کوشش کرے تو ایسے مجرمان کو کرار واقعہ سزا ملے اور یہ درندے نشان عبرت بنیں توتب ہی ایسے واقعات رک سکتے ہیں۔

میڈیاو سوشل میڈیا پر اس طرح کے ہولناک واقعات کا سن کر ایسا لگتا ہے کہ شاید اب ہم اخلاقی تباہی کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں بس عذاب آناباقی ہے ۔حکومت وقت کے ساتھ معاشرے کے اہل ثروت اور مخیر حضرات کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غریب ،نادار،یتیم ،بے سہارا بچوں کے لئے تعلیمی وظائف ،کتب ،یونیفارم ،جیب خرچ کی فراہمی کے لئے اپناکردار ادا کریں تاکہ غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنے والے بچے بھی تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوسکیں ان کو شعور وآگاہی آئے وہ ان درندوں کی درندگی کے بھینٹ چڑھنے سے بچ سکیں ۔اپنے بچوں کودرندوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا من حیث القوم لمحہ فکریہ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

bachay darindon ke rehmo karam par kyun ? is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 December 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.