بلواکانومی کی ترقی کے لیے سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کرنے کی ضرورت

کسی ملک یا خطے کی جانب سے اپنے شہریوں اور ماحولیات خصوصاً سمندروں کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے دوررس ترقی حاصل کرنا بلواکانومی کی بنیاد ہے۔بلو اکانومی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے سمندروں اور اُن کے وسائل کے استعمال پر زور دیاجائے۔

جمعرات 30 جولائی 2020

Blue Economy Ke liye Samandar Ke Hawale se La-ilmi Khatm Kerne ki Zarorat
عبید احمد
بلواکانومی سے مرادبحری معاشی سر گرمیوں اور ان سے حاصل کی جانے والی ترقی کو ماحولیات کی تباہ کاریوں کا باعث نہ بننے دینا اور سمندری ذخائر سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا ہے۔ کسی ملک یا خطے کی جانب سے اپنے شہریوں اور ماحولیات خصوصاً سمندروں کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے دوررس ترقی حاصل کرنا بلواکانومی کی بنیاد ہے۔بلو اکانومی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے سمندروں اور اُن کے وسائل کے استعمال پر زور دیاجائے۔

پاکستان میں یہ تصور ابھی نیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے سمندر کے حوالے سے لاعلمی کا شکار رہا ہے۔ اس سے مراد یہ کہ پاکستان میں نہ اسٹرٹیجک سیکیورٹی اور معاشی ترقی کے لیے بحری طاقت کے منافع بخش استعمال کو سمجھا گیا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔

(جاری ہے)


دنیا کے کئی ممالک بلواکانومی کو پالیسی کا حصہّ بنا کر معاشی ترقی اور ملازمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

بحری صنعت میں تعمیرات، ذرائع نقل و حمل، قدرتی ذخائر کی کشیدگی، جہاز سازی، مواصلاتی تاریں بچھانا، ادویہ سازی، لہروں کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنا، سیاحت، فشریز اور آبی زراعت وہ صنعتی سرگرمیاں ہیں جن سے معیشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ روایتی بحری ترقی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ،بحری انفارمیشن اینڈ سائنس سیکٹر بھی بلواکانومی سے ہونے والی ترقی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

بلواکانومی کو اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور اس کے لیے سمندر اور بحری ذخائر کا استعمال پائیدار بنیادوں پر کیا جاناچاہیے۔ بنیادی طور پر معاشی و معاشرتی ترقی اور ذخائر وماحولیات کے درمیان ایک مسلسل متوازن رشتہ قائم کرنا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اس سے جُڑی لاعلمی کو ختم کیا جائے۔ پاکستان میں اس کی مثال سمندروں کے حوالے سے سائنسی تحقیق پر مبنی ترقی کا نہ ہونا اور سمندروں کو قومی اثاثہ سمجھتے ہوئے اُن کے حوالے سے کام نہ کرنا ہے۔

   سمندر کے حوالے سے لاعلمی کئی پالیسی فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے جیسا کہ حکومت کی جانب سے نیوی اور قومی بحری پالیسی کے لیے مناسب فنڈز نہ دے کر سمندروں کی اہمیت کو نظرانداز کردینا۔ اسی طرح سے دیگر وجوہات میں اداروں کے درمیان سمندروں اور اُن سے حاصل کردہ معاشی فوائد کے حوالے سے کسی مشترکہ لائحہ عمل کا فقدان بھی اس کی ایک مثال ہے۔

اور مزید ستم ظریفی یہ کہ اس حوالے سے معاشی فوائد کے بجائے سمندروں کو لاحق ماحولیاتی خطرات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ہمارے قومی سیکیورٹی پیرائے میں بحری سیکیورٹی کو خاص اہمیت دی جانی چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں حکمران اور پالیسی ساز پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر اب تک سمندرکے حوالے سے لاعلمی کا شکار ہی رہے ہیں۔

ہماری عوام کے ذہنوں میں بھی زمین کے گرد گھومتی سوچ ہی ہمیشہ سے پروان چڑھائی گئی ہے۔ بحری صنعت کی ترویج کے لیے کسی پالیسی کا نہ ہونا پاکستان کے پالیسی سازوں میں بحری استعداد سے ناواقفیت کامنہ بولتا ثبوت ہے اور آنے والی دہائیوں میں ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
بہر حال، پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کی استعداد بڑھانے کے لیے پاک بحریہ نے بحری سرگرمیوں کی ترویج کے لیے کئی اقدام کیے ہیں۔

سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کرنے کے لیے بھی پاک بحریہ نے آگاہی مہمات کا آغاز کیا ہے۔اس سلسلے میں پاک بحریہ کی جانب سے منعقد کی جانے والی میری ٹائم سیکیورٹی ورکشاپ(MARSEW) قابلِ ذکر ہے۔ یہ ورکشاپ 2017سے باقاعدگی سے سالانہ بنیادوں پر منعقد کی جاتی ہے جس کا مقصد قومی پالیسی سازوں کو بحری امور کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اس ورکشاپ میں سیاست، بیوروکریسی، میڈیا، سول سوسائٹی اور فوج کے ممبران شریک ہوتے ہیں۔

پاکستان کی بحری فوج طاقت کے مظاہرے کے سفارتی مشن بھی موثر طور پر سر انجام دے رہی ہے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے قابلِ اعتبار اور مشترکہ لائحہ عمل پر عمل درآمدبھی کر رہی ہے۔ اسی کے ساتھ، پاک بحریہ سمندروں کے حوالے سے لاعلمی کم کرنے کے لیے اسکالز اور تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو پاک بحریہ کی مختلف تقریبات میں مدعو بھی کرتی ہے۔
مختصراً یہ کہ بلو اکانومی ایک تیزی سے مقبول ہوتا تصور ہے۔یہ تصور سمندر پر منحصر ترقیاتی مواقعوں اور ماحولیات کے تخفظ کا امتزاج ہے، پر اس امتزاج کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کر کے جدیدیت پر مبنی بحری پالیسی کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائے جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Blue Economy Ke liye Samandar Ke Hawale se La-ilmi Khatm Kerne ki Zarorat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 July 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.