کرونا وائرس کی وبا اور پاکستان

اب صورتحال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں طبی عملہ بغیر کسی بھی حفاظتی لباس اور سہولتوں کے مریضوں کا سامنا کر رہا ہے اور خود بھی اس موذی مرض میں مُبتلا ہوتا ہوا نظر آتا ہے

بدھ 25 مارچ 2020

coronavirus ki waba aur Pakistan
تحریر : ڈاکٹر محمد بابر رفیق

تمام دُنیا اس وقت ایک عالمگیر وبا سے نبرد آزما ہے۔ اور ہر مُلک اپنے اپنے وسائل کے مُطابق اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارا ہمسایہ مُلک چین جہاں سے اس کا آغاز ہوا اس پر قابو پا چُکاُہے اور اب وہاں نئے مریض سامنے نہیں آرہے۔ اس کے بر عکس ایران اور اٹلی میں یہ وبا بہت ہی مُہلک شکل اختیار کر چُکی ہے اور ہر دوممالک میں مُلکی وسائل اور افرادی قوت قطعی ناکافی ہے۔

اور ان دونوں مُمالک میں غالباً اس کا سبب ابتداء میں انتظامیہ کا نرم رویہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں بھی حکومت اور انتظامیہ کی غفلت عیاں ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی اورصُوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی نام کی بھی نہیں۔

(جاری ہے)

ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے۔ کسی کو یہ نہیں پتہ کہ کیاکرنا ہے، کیا کہنا ہے اور کب کہنا اور کرنا ہے۔ ابتداء میں ایرانی زائرین اور دیگر متاثرہ ممالک سے واپس آنے والے شہریوں کو بلا روک ٹوک اپنے اپنے گھروں کو جانے دیا گیا۔

پھر زمینی راستے سے واپس آنے والوں کو سرحد پر بغیرکس قسم کے انتظامات اور وسائل کے روکا گیا۔ اور اب بہت دیر سے ہر قسم کا سفر بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام اقدامات میں کہیں بھی کسی قسم کی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔
اس تمام صورتحال میں کہیں بھی ایسے ماہرین نظر نہیں آئے جو وبائی امراض کے پھیلاؤ کو سائنسی طریق پرپرکھ کر صیح معنوں میں منصوبہ بندی کرتے اور وبا کو روکنے یا محدود کرنے کے اقدامات کرتے۔

اس کے بر عکس ہرجگہ پر ایسے سیاستدان اور با اثر افراد بیانات دیتے نظر آئے جن کا سائنس اور وبائی امراض کے علم سے دور کابھی واسطہ نہیں تھا لیکن ان کی پہنچ اقتدار کے ایوانوں تک تھی سو وہ تمام انتظامات بلکہ“بد انتظامی”کے کرتا دھرتا بن گئے۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں طبی عملہ بغیر کسی بھی حفاظتی لباس اور سہولتوں کے مریضوں کا سامنا کر رہا ہے اور خود بھی اس موذی مرض میں مُبتلا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

کسی بھی وباء کے پھیلنے کے مُختلف مراحل ہیں اور دوسرے مُلکوں یا شہروں سے واپس آنے والے لوگوں کی بندش صرف ابتداء میں مؤثر ہوتی ہے۔ جب وباء شہروں میں موجود ہو تب اس کو محدود کرنے کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں اب یہ مرحلہ آچُکا ہے۔ اب ایرانی یا دوسرے زائرین کو سرحد پر یا کسی اور مقام پر اکٹھا بند کرنا کسی بھی طرح سے مدد گار نہیں بلکہ اس سے دوسری مُتعدی بیماریاں پھیلنے کا امکان ہے۔

اس لیے لوگوں فورًا گھر بھیج کر اپنے آپ کو گھروں میں بند کرنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ اور تمام وسائل کو ہسپتالوں میں علاج اور عملہ کے تحفظ کے لیے مُختص کرنا چاہیے۔
چین کے بعد جن دو جگہ پر یہ وبا اب تک قابو میں آئی ہے وہ چین ہی سے مُتصل ہانگ کانگ اور سنگا پور کے شہر ہیں اور وہاں اس وبا پر قابو پانے میں سب سے اہم اُن کی حکمت عملی کا عمل دخل ہے۔

وہاں کے محکمہ صحت کے مُطابق ہاتھوں کی صفائی کا خاص اہتمام، مُنہ پر ماسک اور علامات کی صورت میں فوری طور پر اپنے آپ کو گھر میں محدود کرنا سب سے اہم اور کار آمد ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سکول کالج اور دفاتر کی بندش، اور تمام مذہبی و معاشرتی اجتماعات پر پابندی جیسے اقدامات بہت اہم ہیں۔ سب لوگ گھر کی چار دیواری میں رہیں اور صرف اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے ہی گھر سے نکلیں۔

وہاں پر ہسپتالوں میں بھی بہت سختی سے ہاتھوں کی صفائی کا اہتمام کیا گیا اور اگر کوئی ڈاکٹر یا ہسپتال کا مُلازم کسی ایسے شخص کے قریب تیس منٹ یا اس سے زیادہ رہا ہو جسے بعد ازاں کرونا تشخیص ہو گیا تو اُن کو بھی اپنے گھر میں“قرنطینہ”کے لیے بھیج دیا گیا۔ ان سادہ اور کم خرچ اقدامات سے ہانگ کانگ اور سنگاپور میں وبا اب مُکمل طور پر قابو میں ہے اور نئے مریض سامنے نہیں آرہے۔

پاکستان میں بھی ہسپتالوں کے عملہ کو ان عادات کو اپنا کر اپنے آپ کو اس مُتعدی موذی مرض سے بچانا ہو گا۔
کیونکہ موجودہ صورتحال میں حکومت سے کسی امداد کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مُترادف ہے۔
 اب تک کی معلومات کے مُطابق یہ وائرس دھاتی سطح پر تین سے چار گھنٹے اور پلاسٹک اور کاغذ/گتے کی سطح پرچوبیس گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔

اس لیے ہاتھوں کی صفائی اور وہ اردگرد کی تمام اشیاء کو وائپس سے صاف رکھنے جیسے اقدامات نہایت اہم ہیں۔ دوسری طرف ملیریا کی دوا کلو رو کوئین اور ازیتھرو مائیسین کے بارے میں کوئی بھی سائنسی ثبوت اب تک سامنے نہیں آیا۔ لیکن کلورو کوئین کو بغیر ضرورت کے کھانے سے نُقصان کااحتمال بہت زیادہ ہے۔
ہمارے مُلک میں ایک سو سے زائد طبی تعلیم کے ادارے ہیں اور سب میں“کمیونٹی میڈیسن”کے شعبے میں ایسے افراد موجود ہیں جو وبائی امراض سے نبرد آزما ہونے کی سائنس کے ماہر ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ اس معاملے میں ان ماہرین کی مدد اور معاونت لی جائے تاکہ اس عفریت سے نمٹا جا سکے۔ ورنہ ہمارا حال بھی ایران یا اٹلی جیساہونے کا احتمال ہے۔ اور یہاں مذہبی رہنماؤں کو اپنی ذات اور ذاتی انا سے بالا تر ہو کر عوام کی رہنمائی کرنی چاہیے۔کیونکہ عوام ہر حال میں مذہبی رہنماؤں کی طرف مدد کے لیے دیکھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

coronavirus ki waba aur Pakistan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.