درندگی

آ پ اپنے معاشرے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے خود کو پہلا قطرہ بنائے۔ تاکہ آنے والی ہماری نسلوں کو بہتر معاشرہ مہیا ہو سکے

Syed Ali nasir kazmi سید علی ناصر کاظمی پیر 18 فروری 2019

darindgi
 اگر آپ ایک بیٹی کے باپ ہے تو اپ کو علم ہوں گا کہ بیٹیا ں باپ کی لاڈلی ہوتی ہے باپ کے چمن کا پھول ہوتی ہے۔ جب کوئی اْس پھول کو بے دردی سے مسل کے توڑ دے تو باپ کی کیا حالت گی۔ ایسے ہی درد سے محمد امین انصاری نے اپنی بیٹی کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ایک سال گذار دیا۔ اس ایک سال میں نیند تو دور کی بات اس بندے کو چین بھی نصیب نہیں آیا ہو گاکیونکہ آنے والا ہر دن اس انسان کے درد میں مزید اضافہ کرتا جائے گا، بلکہ اس کے درد میں ہی نہیں بلکہ ہر باپ کے درد میں اضافہ کرتا جائے گا۔


جی میں بات کر رہا ہو معصوم زنیب مرحوم کے والدمحمد امین انصاری کی۔ تقریباََ معصوم زینب کو اس دنیا کو چھوڑے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ میں کوئی مفکر نہیں ہوں ناہی میں کو ئی عالم ہومیں بھی ایک زنیب کا باپ ہوں۔

(جاری ہے)

اور یہ بات میں اس معاشرہ سے پوچھنا چاہتا ہو ں کہ میری زینب اس درندہ صفت معاشرے میں محفوظ ہے۔ کیا میرے پیارے ملک کا دستور وآئین میری زینب کو محفوظ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر سکتا ہے۔

مجھے کو ئی باپ اپنی زنیب کے محفوظ ہونے کا یقین دلا سکتا ہے۔ مجھے اْمید ہے کہ جواب نفی میں ہو گا۔
پھر میں اسلام کی پہلی زندگی ک ذکر کرو گا کیونکہ اْ س دور میں معصوم بیٹیا ں دفنا دی جاتی تھی۔ اس دور میں معصوم بیٹیوں کی آبرو پامال کر کے دفنایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ اسلام سے پہلے والی قوموں سے بھی زیادہ حد سے تجاوز کر گئے ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے۔ کیا ہم کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے واقفیت نہیں رہی یا ہمارے معاشرے نے درندگی کو چْن لیا ہے۔ اور اپنے مسلمان ہونے کا احساس کھو دیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ 2017ء میں پاکستان میں تقریباََ 9کیس روزانہ بچوں سے درندگی کے رپورٹ ہوئے جبکہ 2018ء کے پہلے 6ماہ میں روزانہ کی بنیاد پر 12کیس رپورٹ ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2011 ء سے 2017ء تک بچوں کے متعلقہ لڑکوں سے درندگی کے7242جبکہ لڑکیوں کے 10620کیسز سامنے آئے۔

جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 13263کیسز مختلف تھانوں میں رجسٹرڈ ہوئے۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق صرف 112مجرموں کو گرفتار کیا گیا۔ جس میں سے 25کو سزائے موت،11کو عمر قیداور باقیوں کو مختلف سزائیں دی گئی۔ 
علاوہ ازیں حکومت نے تحفظ اطفال بل 2017ء منظور کیا تھا۔ جس میں بچوں کے تحفظ کے لئے اقدمات اور مخصوص تربیتی مراکز قائم کرنے کا فیصلہ تھا۔

ان تمام انتظامات کے باوجود کوئی اپنے بچوں کو محفوظ نہیں سمجھ رہا اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کو صرف اپنے بچوں کی فکر ہے۔ کسی دوسرے کے بچے کا ہم خیال نہیں کرتے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ اور ایسے درندوں کو اپنے ناپاک اعزام پورے کر نے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے پیارے بنی نے مسلمانوں کو بھائی بھائی کہا۔ کیا ہم اس پر عمل کرتے ہے یا ہم ایسے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہم کو اسلام کی تعلیمات کا پاس ہی نہیں رہا۔

آخر میں صرف میری یہ گذارش ہے کہ بھائی آ پ اپنے معاشرے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے خود کو پہلا قطرہ بنائے۔ تاکہ آنے والی ہماری نسلوں کو بہتر معاشرہ مہیا ہو سکے۔ اللہ پاک کی ذات آپ کو اور مجھے سیدھے راستے پہ چلنے کی ہدایت اور اپنے معشرے کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

darindgi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 February 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.