ہیلن کیلر!

کالج کی تعلیم کے بعد ہیلن نے اپنی زندگی دوسرے معذور اورنابینا بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے وقف کردی۔ و ہ مختلف ممالک میں جاتی اور اپنی تقریروں اور تحریروں سے معذور لوگوں کو جینے کے گرسکھاتی۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ اگر معذور لوگوں کو موقع دیا جائے تو وہ بھی بھرپور اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں

Muhammad Irfan Nadeem محمد عرفان ندیم پیر 24 فروری 2020

helen keller
اس کا نام ہیلن کیلر تھا ، وہ 27جون 1880کو امریکی ریاست البانہ میں پیدا ہوئی اور دنیا کو حیران کر گئی ۔ پیدائش کے وقت وہ نارمل اور صحت مندبچی تھی، ڈیڑھ سال کی عمر میں وہ بیمار ہوئی اور یہ بیماری اس کی بصارت و سماعت دونوں کوساتھ لے گئی ۔ یہ ہیلن کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا اور اس صدمے نے اسے ابنارمل بنا دیا ، وہ چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ ہو جاتی ، کچن کے برتن توڑ دیتی ، بڑو ں سے بدتمیزی کرتی ، کوئی مذاق کرتا تو چڑ جاتی اور بیٹھے بیٹھے رونا شروع کر دیتی۔


 ہیلن کے والدین کے لیے یہ صورتحال تکلیف دہ تھے ، انہوں نے ہیلن کی مدد کے لیے اس کی تعلیم کا بندو بست کرنا شروع کر دیا ۔ انیسویں صدی میں امریکہ میں نابینا بچوں کی تعلیم کا کوئی رواج نہیں تھااور معذور بچوں کو گھروں میں ہی قید رکھا جاتا تھا ۔

(جاری ہے)

ایک ڈاکٹر دوست نے ہیلن کے والد کو الیگزینڈر گراہم بیل کے پاس جانے کا مشورہ دیا ، گراہم بیل ٹیلی فون کے موجدہونے کی وجہ سے مشہور ہو چکے تھے، اسے نابینا اور معذور بچوں سے بہت ذیادہ ہمدردی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خود اس کی ماں اور بیوی سماعت سے محروم تھیں ۔

گراہم بیل نے ہیلن کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ پرکنس انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ کے سرپرست کو خط لکھ کر ٹیوٹر کی درخواست کریں ، درخواست منظور کر لی گئی اوریوں ہیلن کی زندگی کا سفر ایک نئے انداز سے شروع ہوا ۔
 مارچ 1887میں ہیلن کے گھر معمول سے ذیادہ گہما گہمی تھی ، سب لوگ بہت خوش اور پرجوش نظر آ رہے تھے اور باورچی خانے سے مزے دار کھانوں کی خوشبوئیں آ رہی تھیں ، ہیلن کو لگا شاید گھر میں کوئی خاص مہمان تشریف لا رہا ہے ، تھوڑی دیر بعد گھر کا دروازہ کھٹکا ،یہ مس اینی سیلیون تھیں جو پرکنس انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ کی طرف سے ہیلن کو پڑھانے آئی تھیں ۔

مس اینی سیلیون نے ہیلن کو پڑھانا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ بے جا ہمدردی اور محبت کی وجہ سے ہیلن ضد، غصہ اور بدتمیزی کی عادی ہو چکی ہے۔ اس نے والدین سے درخواست کی کہ اسے ہیلن کیلر کے ساتھ کسی الگ مقام پر رہنے دیا جائے۔والدین نے اپنے بڑے مکان کا ایک حصہ اینی اور ہیلن کے لیے وقف کر دیااورہیلن کے سیکھنے کا عمل شروع ہوگیا۔
ایک دن ہیلن اپنی ٹیچر مس اینی کے ساتھ چہل قدمی کر رہی تھی، چہل قدمی کرتے ہوئے وہ ہینڈ پمپ کے قریب سے گزریں تو اینی نے ہیلن کا ہاتھ ہینڈ پمپ سے نکلتے ہوئے پانی پر رکھ دیا، ساتھ ہی اینی نے اس کے دوسرے ہاتھ پر لفظ واٹر کے ہجے لکھنا شروع کر دیئے ۔

ہیلن کو پہلی بار معلوم ہوا کہ پانی ایک ٹھنڈی بہتی ہوئی شے کا نام ہے اور ہر شے کا ایک نام ہوتا ہے ۔
 یہ دن ہیلن کے لیے یاد گار دن تھا ، اس کے بعد اس نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ناموں کے ہجے کیے ، اب وہ مختلف چیزوں کے ناموں کو جان سکتی تھی اور بتا سکتی تھی کہ یہ کیا ہے ۔ ایک ماہ کے اندر ہیلن نے کئی سو الفاظ سیکھ لئے تھے۔اب وہ ہر چیز کا نام جاننا چاہتی تھی، وہ روز اینی کے ساتھ باہر چہل قدمی کے لیے جاتی جہاں اینی اسے مٹی، پہاڑ، دریااور براعظم کی شکلیں بنا کراسے محسوس کرواتی، درختوں اور پھولوں کے نام بتاتی اور پودوں کا بڑھنااور چڑیوں کا گھونسلا بننا سکھاتی ۔

 ہیلن نے ہاتھ میں مرغی کا انڈا پکڑ کر چوزے کا نکلنا محسوس کیا اور ہتھیلی میں پانی لے کر مینڈک کے بچوں کا اپنی انگلی کی مدد سے تیرنے کا تجربہ کیا۔ہاتھ کے اشاروں کی مدد سے یہ سب کچھ سیکھنے کے بعد مس اینی نے ہیلن کو پرکنسن ادارے کے ابھرے ہوئے حروف کی کتابیں پڑھانا شروع کردیں،اس کے بعد ہیلن کو بریل طریقہ تعلیم یعنی ابھرے ہوئے لفظوں کی مدد سے پڑھنے کا طریقہ بتایااور ہیلن نے جلد ہی ان سب چیزوں کو سیکھ لیا۔

اینی نے محسوس کیاکہ اب ہیلن کو باقاعدہ پرکنسن اسکول جانا چاہیے۔
مئی 1888 میں ہیلن کو پرکنس اسکول میں داخل کر وا دیا گیا ۔ یہاں وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ہاتھ کی انگلیوں کی مدد سے باتیں کرتی اور فارغ وقت میں لائبریری چلی جاتی جو اس وقت کی نابینا بچوں کے لئے قائم سب سے بڑی لائبریری تھی، ہیلن یہاں تین سال زیر تعلیم رہی اور ان تین سالوں میں اس نے دوسرے مضامین کے علاوہ لاطینی اور فرنچ زبانیں بھی سیکھ لیں۔

نو سال کی عمر میں ہیلن نے فیصلہ کیا کہ وہ اب بولنا سیکھے گی، اس کی ایک دوسری ٹیچر سارہ فیلر نے ہیلن کو انگلیوں کی مدد سے ہونٹ، حلق کی ارتعاش، منہ اور زبان کے اتارچڑھاوٴکو محسوس کرنا سکھایا، ہیلن نے صرف ایک گھنٹے میں چھ حروف اور دس ہفتوں میں جملہ ادا کرنا سیکھ لیااور صرف تیرہ سال کی عمر میں ملک کے مختلف اخبارات میں اس کی کامیابی کی کہانیاں چھپنے لگیں۔

چودہ سال کی عمر میں اس کا داخلہ نیو یارک کے سماعت سے محروم بچوں کے سکول رائٹ ہیومیسن اسکول میں ہو گیا، سولہ سال کی عمر میں اس نے کالج جانے کا فیصلہ کر لیا،وہ بصارت سے محروم پہلی گریجویٹ اسٹوڈنٹ تھی، اسی سال اس کی زندگی کی کہانی اخبار میں قسط وارشائع ہونا شروع ہوئی جو 1904 میں دی سٹوری آف مائی لائف کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی۔

کالج کی تعلیم کے بعد ہیلن نے اپنی زندگی دوسرے معذور اورنابینا بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے وقف کردی۔ و ہ مختلف ممالک میں جاتی اور اپنی تقریروں اور تحریروں سے معذور لوگوں کو جینے کے گرسکھاتی۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ اگر معذور لوگوں کو موقع دیا جائے تو وہ بھی بھرپور اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔1963میں امریکی صدر نے اسے امریکہ کا اعلی اعزاز میڈل آف فریڈم دیا جو کسی بھی امریکی شہری کے لئے اعزاز کی بات ہے۔

پوری دنیا آج بھی ہیلن کو سلام کرتی ہے اور آج جب بھی نابینا اورسماعت سے محروم افرادکے سامنے ہیلن کا نام لیا جاتا ہے تو ا ن کا سر ادب سے جھک جاتاہے ۔ہیلن کی وفات کے بعد اس پر فلمیں بھی بنیں اور ان فلموں نے ایوارڈ بھی حاصل کیے ۔
 ہیلن کیلر کا انتقال یکم جون 1968 کو کنیکٹی کٹ امریکہ میں ہوا۔ تین عظیم خواتین جن میں ہیلن کیلر، اینی سیلیون اور پولی تھامسن نیشنل کیتھڈرل ڈی سی میں دفن ہے جن کی قبروں کے ساتھ انگریزی اور بریل میں یہ عبارت کندہ ہی:”ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

“دنیا کے عظیم ادیب مارک ٹیون نے ایک بار کہا تھا: ”انیسویں صدی کی سب سے دلچسپ شخصیات دو تھیں ، ایک نپولین اور دوسری ہیلن کیلر۔“ہیلن کیلر بالکل نابینا تھی مگر اس کے باوجود اس نے اتنی کتابیں پڑھی تھیں جتنی بہت سے آنکھوں والے بھی نہیں پڑھ سکتے، وہ سات کتابوں کی مصنف بھی تھی، اس نے اپنی زندگی پر ایک فلم بھی بنائی اور اس میں کام بھی خود ہی کیا تھا۔

 وہ بالکل بہری تھی لیکن وہ کانوں والوں سے زیادہ لطف اندوز ہوتی تھی،وہ اپنی زندگی کے ابتدائی نوبرس قوت گویائی سے محروم رہی مگر اس کے باوجود اس نے امریکہ کی ہر ریاست میں تقریریں کی ہیں، وہ پورے یورپ کاچکر بھی لگا چکی تھی۔وہ نابینا اور سماعت سے محروم لوگوں کی مدد کے لیے 1956میں پاکستان آئی،اس وقت اس کی عمر 76برس تھی،وہ بڑھاپے کے باجود چاک و چوبند تھی، اس نے کراچی میں مختلف اجتماعات سے خطاب کیا اور نابینا اور سماعت سے محروم لوگوں کے اسکولوں میں بھی گئی۔

میں نے پچھلے دنوں لاہور بک فیئر سے ہیلن کیلر کی آٹو بائیوگرافی خریدی اور پڑھنے کے بعد اس کے عزم ، ہمت اور محنت کو سلام کرنے پر مجبور ہو گیا ۔ یہ سچ ہے کہ دنیا صر ف انہی لوگوں کو سلام کرتی اور یاد رکھتی ہے جوعزم ، ہمت ، محنت اور یقین کے ساتھ جیتے ہیں۔بیسویں صدی میں لاکھوں کروڑوں صحت مند اور تندرست لوگ آئے اور چلے گیے آج کوئی ان کا نام تک نہیں جانتا مگر ہیلن کیلرنابینا اور سماعت سے محروم ہونے کے باجود تاریخ میں آج بھی زندہ ہے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

helen keller is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.