بھارت کی پاکستان سے دشمنی کیا ہے؟

پاکستان میں نئی نسل سوال کرتی ہے کہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی کیا ہے۔ جو دونوں ملکوں کو ماضی میں فوجی ٹکراوٴ تک لے جاتی رہی اور اب بھی ہمہ وقت جنگ کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں تو دانشور انہیں ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر ایک ایسا حل طلب مسئلہ ہے کہ جب تک بھارت کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق نہیں دیتا

جمعہ 12 اگست 2016

India Ki Pakistan Se Dushmani Kiya Hai
خالد بیگ:
پاکستان میں نئی نسل سوال کرتی ہے کہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی کیا ہے۔ جو دونوں ملکوں کو ماضی میں فوجی ٹکراوٴ تک لے جاتی رہی اور اب بھی ہمہ وقت جنگ کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں تو دانشور انہیں ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر ایک ایسا حل طلب مسئلہ ہے کہ جب تک بھارت کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق نہیں دیتا ان کے آزادی کے حق کو تسلیم نہیں کرتا تو پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے۔

مسئلہ کشمیر پر بھی ہمارے دانشور دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک طبقہ مقبوضہ کشمیر کاقائداعظم کے افکار و نظریات کیمطابق پاکستان سے الحاق چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کو بلاوجہ ”پاکستان کی شہ رگ“ قرار نہیں دیا تھا اور آزادی کے بعد بھارتی فوج کی کشمیر میں آمد کے مقاصد کو بھانپ کر ہی قائداعظم نے پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تاکہ بھارت کی فوجی یلغار کو روک کر صرف کشمیر ہی نہیں پاکستان کی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔

(جاری ہے)

دانشوروں کا ایک طبقہ کشمیر کے مسئلہ پر پاک بھارت کشیدگی کو پاک فوج کی ضرورت قرار دیتا ہے جو دراصل بھارت کو بے گناہ اور بے ضرر قرار دینے کی عملاً کوشش ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے اپنے گرد موجود دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات دوستانہ اور نارمل ہیں؟ اگر ایسا ہے تو 1962 ء میں چین کے ساتھ بھارتی کشیدگی نے جنگ کی صورت کیوں اختیار کی۔

بھارتی مورخین کی تحریریں اٹھا کر دیکھ لیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر بھارت متنازعہ علاقہ ہونے کے باوجود چین کے زیر کنٹرول علاقے پر قبضہ کی غلطی نہ کرتا تو چین نے جوابی کارروائی نہیں کرنی تھی۔
چین نے تو تاریخی طور پر سکم کے تبت سے جغرافیائی تعلق کے باوجود بھارت کی سکم پر قبضے کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کی حالانکہ 1947 ء میں برطانوی ہند کی تقسیم کے وقت بھارت کے بعد سکم کو بھی بھوٹان کی طرح آزاد ریاست کا درجہ دے کر تاج برطانیہ نے اسے آزاد کر دیا تھا جہاں بھوٹان و نیپال کی طرح بادشاہت کا نظام قائم ہوا۔

1962 ء میں جب بھارت اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو سکم ایک آزاد مملکت کے طور پر موجود تھا۔ گو نہرو نے سکم کے بادشاہ سے ایک معاہدہ کے تحت سکم کے دفاع و خارجہ معاملات پر دسترس حاصل کر لی لیکن سکم کی آزاد حیثیت برقرار رہی۔ ریاست جونا گڑھ حیدر آباد دکن کی طرح بھارت سکم پر قبضہ کی نیت رکھتا تھا جس کیلئے بھارت نے وہاں پہلے تو امن و امان کے مسائل پیدا کئے بعد ازاں 1973 ء میں سکم کے بادشاہ کے خلاف بغاوت برپا کر کے قیام امن کے نام پر پولیس کی بھاری نفری سکم میں داخل کر دی۔

دوسرے لفظوں میں بھارت نے سکم پر قبضہ کر لیا اور آخرکار 1975 میں بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کردہ قرار داد کے بعد ریاستی ایکٹ کے تحت سکم کو بھارت میں شامل کر لیا گیا۔ اس سے قبل بھارت مشرقی پاکستان میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف کامیا بی سے اپنی سازش کو بروئے کار لا چکا تھا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد گو آج کل نیو دہلی اور ڈھاکہ میں گاڑھی چھن رہی ہے لیکن سمندری حدود‘ دریاوٴں کے پانی‘ سرحدی تنازعات جوں کے توں موجود ہیں جن کی بنا پر ماضی میں بھارت اور بنگلہ دیش کی افواج کے درمیان متعدد خونیں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

ان تنازعات کا حسینہ واجد کی بھارت کیلئے ریشہ خطمی بھی خاتمہ نہیں کر سکی۔
مالدیپ کی بھارت کے ساتھ نہ کوئی سرحد ملتی ہے نہ ہی کوئی سمندری حدود کا جھگڑا ہے تو پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ 1988 ء میں بھارت نے مالدیپ پر قبضے کی کوشش کی جہاں وہ 1980 ء سے سری لنکا میں سرگرم گوریلا تنظیم ”پی ایل او ٹی ای “ کو بدامنی پھیلانے کیلئے استعمال کر رہا تھا۔

3 نومبر 1988 کو 80 کے قریب سری لنکن گوریلوں نے مالدیپ کے دارالحکومت مالے پہنچ کر ” ائرپورٹ “ کے علاوہ دیگر اہم سرکاری عمارتوں و مواصلاتی تنصیبات پر قبضہ کر لیا۔ مالدیپ کے سربراہ نے فوری طور پرمدد کیلئے امریکہ‘ برطانیہ و بھارت کو مراسلے بھیجے۔ قریب ہی سمندر میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی کے باوجود بھارت کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ بھارتی ائرفورس کے ”آئی ایل-76 ‘ ‘ساختہ ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے 1600 فوجیوں پر مشتمل خصوصی فورس مالے روانہ کرے۔

بھارت کا فوجی دستہ بریگیڈئر فرخ بلسارا کی سربراہی میں 2 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے مالے پہنچا تو سری لنکن گوریلے وہاں سے دم دبا کر بھاگ گئے۔ اس ڈرامائی بغاوت کو مالدیپ کے اندر آج بھی ”افسانوی بغاوت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ بھارت کے آپریشن کیکٹس کے نام سے مدد پر مالدیپ کا صدر مامون عبدالقیوم بھارت کا اس قدر ممنون ہوا کہ اب مالدیپ کو بغیر اعلان شدہ بھارتی کالونی تصور کیا جا تا ہے۔


سری لنکا میں تامل گوریلوں کے ذریعے بھارت نے 2 دہائیوں تک تباہی مچائے رکھی۔ بھارت سری لنکا پر اپنے گرد موجود دیگر چھوٹی ریاستوں پر کنٹرول کی طرح دسترس چاہتا تھا جسے سری لنکا کی عوام اور حکومتوں نے ناکامی سے دوچار کر دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بھارت قیام امن میں معاونت کے نام پر 1987 ء میں اپنی ایک لاکھ فوج سری لنکا بھیجنے میں کامیاب ہو گیا لیکن سری لنکا میں بھارتی فوج کے سری لنکن عوام کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک اور اس بنا پر وہاں بھارتی فوج پر ہونیوالے حملوں کے نتیجے میں بھارت کو 1990 ء میں اپنی فوجیں واپس بلانی پڑیں۔

علاوہ ازیں عالمی قوتیں بھی بھانپ گئی تھیں کہ بھارت سری لنکا پر قبضے کی نیت رکھتا ہے تو بھارتی فوج کی رخصتی میں عالمی دباوٴ کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ تاہم 30 جولائی 1987 ء کو سری لنکا میں کولمبو ائرپورٹ پر بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی پر فوجی دستے کی سلامی کے دوران ایک سری لنکن فوجی کی طرف سے بندوق کے بٹ کے ساتھ حملے نے خاصی شہرت حاصل کی جو پوری دنیا میں بھارت کیلئے شرمندگی کا باعث بنی۔


بھوٹان میں تربیت کے نام پر بھارتی فوج کی بڑی تعداد موجود ہے بظاہر آزاد یہ ملک سیاسی ‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے بھارت کے قبضے میں ہے۔ نیپال قدرے آزاد ہے۔ بھارت تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک نیپال پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کبھی نیپال کا تجارتی سامان روک لیتا ہے تو کبھی چاول و دیگر اشیائے خورونوش کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

نیپال کی سیاسی اشرافیہ میں بھارت نواز گروپ بہت موٴثر ہے لیکن وہ سازشیں کرکے نیپالی حکومتوں کو غیر مستحکم ضرور کرتا رہا ہے۔ تاہم بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی طرح بھارت کو ابھی تک نیپال میں کوئی اپنا پٹھو سیاستدان یا لیڈر دستیاب نہیں ہو سکا جو عملاً نیپال کو بھارت کی گود میں ڈال سکے۔ اسی طرح برما میں مداخلت اور ناگا علیحدگی پسندوں کیخلاف کاررائی کے نام پر بھارتی فوج تاریخ میں متعدد بار سرحدی خلاف ورزی کرتے ہوئے برما میں داخل ہو چکی ہے۔

10 جون 2015 ء کو برما کی حکومت کو بھارتی فوج کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کرنا پڑا کیونکہ اس سے ایک روز قبل برما کی سرحد کے ساتھ پٹرولنگ کے دوران بھارتی فوجیوں پر علیحدگی پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کیا اور پٹرولنگ دستے کے سارے فوجیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اپنی عوام کو راضی کرنے کیلئے بھارت نے اپنی فوج برما میں داخل کر دی اور کہا کہ وہاں قائم علیحدگی پسندوں کے کیمپ کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

برما نے بھارتی موٴقف کو مسترد کرتے ہوئے برما میں بھارتی علیحدگی پسندوں کے کیمپوں یا اڈوں کی موجودگی کو الزام قرار دیدیا۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساحلی علاقوں سے نکلنے والی قدرتی گیس و پٹرول کے حقوق حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بھارت وہاں مسلمانوں کے قتل عام میں بدھوں کو کس طرح استعمال کر رہا ہے یہ ایک الگ داستان ہے۔ توکیا بھارت کے گرد موجود تمام ہمسایوں کے ساتھ بھارت کے تنازعات کی اصلی وجہ یہ نہیں کہ بھارت خطے میں اپنی چودھراہٹ چاہتا ہے پاکستان سمیت جو ملک اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں حائل ہیں بھارت ان کا دشمن ہے۔

مقبوضہ کشمیر کا تنازع حل ہو بھی جائے تو بھی بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ بھارت نے پاکستان کو بطور آزاد ریاست تسلیم ہی نہیں کیا تو ہم کیوں بھارت سے کشیدہ تعلقات کو مسئلہ کشمیر تک محدود کرتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے بھارت کیخلاف پاکستانی قیادت جی حضوری کا رویہ ترک کر کے دو ٹوک ”جیسے کو تیسا“ کی پالیسی اختیار کرے۔ تبھی کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو گا اور بھارتی سازشوں سے بھی جان چھوٹے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

India Ki Pakistan Se Dushmani Kiya Hai is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.