انڈیا میں مسلم خواتین کی سیاسی نمائندگی کا المیہ

73 برسوں میں محض 17 مسلم خواتین لوک سبھا پہنچ سکیں

پیر 7 دسمبر 2020

India Main Muslim Khawateen Ki Siyasi Numaindagi Ka Almiya
رابعہ عظمت
نریندر مودی نے اپنے پہلے خطاب میں ”سب کا وکاس“ کا نعرہ لگایا تھا لیکن بعد میں آنے والے حالات نے ثابت کر دیا کہ یہاں پر وکاس صرف ہندوؤں کا ہی ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سماجی،معاشرتی،اقتصادی و سیاسی لحاظ سے دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے گا اور یعنی مسلمانوں کا ”وناش“ ہو گا۔باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلم کمیونٹی کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے ان کے لئے ہندوستان میں رہنا مشکل کر دیا گیا ہے۔

گائے ذبیحہ پر پابندی ،طلاق ثلاثہ،پاکستان سول کوڈ،لوجہاد جیسے نت نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے بھارت میں بسنے والے 24 کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں کو نیزے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔دوسری جانب لوک سبھاک میں بھی گزشتہ 73 برسوں میں مسلمانوں کی سیاسی حالت زاد میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی کسی دور میں مسلم ووٹر بادشاہ گر کی حیثیت رکھتا تھا۔

(جاری ہے)

کانگریس سمیت دیگر سیکولر سیاسی پارٹیوں کی جیت میں ایک مسلمان کا ووٹ فیصلہ کن اہمیت کا حامل تھا مگر بڑھتی ہوئی مسلم منافرت اور ہندو فرقہ پرستی نے اس ووٹ کی حیثیت کو ہی بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے جس کی واضح مثال گزشتہ لوک سبھا الیکشن ہیں جس میں بی جے پی کو واقتدار کی سیڑھی چڑھنے کے لئے مسلمانوں کے ووٹروں کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔


مذکورہ الیکشن سے قبل ایک سازش کے تحت مسلمانوں کے ووٹوں کو منقسم کیا گیا تھا اور وہ نادان مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے جھانسے میں آگئے تھے اور اپنی حیثیت ہی گنوا بیٹھے جیسا کہ لوک سبھا الیکشن میں مسلم اکثریتی حلقوں میں تمام بھارتی سیاسی جماعتوں نے ایک کی بجائے تین تین مسلم امیدوار کھڑے کر دئیے گئے تاکہ مسلم اکثریتی ووٹ کو تقسیم کیا جا سکے بالکل ایسا ہی ہوا۔

بھارت کی 73 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کی تعداد 24 کروڑ مسلمانوں کے مقابلے میں دو فیصد سے زیادہ نہیں۔ درحقیقت کسی بھی سیاسی جماعت کو بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی ہرگز منظور نہیں اور جان بوجھ کر مسلم امیدواروں کی تعداد انتہائی محدود کر دی گئی یہ تو مسلمان مردوں کا حال ہے۔

بھارت کی سیاست میں مسلم خواتین کی صورتحال مخدوش ہے۔ تعلیم میں عورتیں سب سے پیچھے،ملکی ترقی میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور سیاست میں شمولیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان کی بھارت کی لوک سبھا میں نمائندگی صرف برائے صفر ہے۔تین طلاق پر شور مچانے والی مودی حکومت کو سیاست سمیت زندگی کے کسی بھی شعبے میں مسلمان عورت کی ترقی ہر گز منظور نہیں بلکہ انہیں جان بوجھ کر پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے کبھی آواز نہ بلند کر سکیں اور جو چند خواتین پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں انہیں بھی یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور ان کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نریندر مودی نے پہلے دور حکومت کے دوران مسلم خاتون نجمہ ہیبت اللہ کو اقلیتی امور کی وزیر بنایا گیا تو وہ بھی بی جے پی کی ترجمانی کرتی ہوئی دکھائی دی مسلمانوں کے ریزرویشن کی مخالفت میں سب سے آگے رہیں۔ ”خواتین ریزرویشن بل“ میں صرف مسلم عورتوں کے ووٹ بٹورنے کے لئے بنایا گیا۔مسلمان خواتین کے لئے کسی بھی شعبہ میں کوٹہ مختص نہیں کیا گیا تھا۔


اعداد و شمار کے مطابق 73 برسوں میں صرف 17 مسلمان خواتین لوک سبھا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں اسی انتہائی کم تعداد کا اعتراف سچر کمیٹی میں بھی کیا گیا اور اس رپورٹ میں خواتین کی سیاسی تنزلی کو تسلیم کیا گیا۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی ہمدرد اور خیر خواہ کہلوانے والی کانگریس نے بھی اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں کئے اور بھارت کی پہلی خاتون وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھی مسلمانوں کی بدترین سیاسی حالت پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں مسلمان عورتوں کی موٴثر نمائندگی کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔

سونیا گاندھی نے خواتین کو مرکزی و ریاستی قانون ساز ادارے میں ایک تہائی ریزرویشن کی فراہمی کا بل پاس کرنے کا مطالبہ ضرور کیا تھا۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ مسلم خواتین کی کم نمائندگی کو موضوع بنایا جاتا۔1952ء سے لے کر 2018ء تک صرف 17 مسلمان عورتیں اسمبلی میں پہنچیں یعنی 24 کروڑ مسلمانوں میں مسلم خواتین قومی وملکی سیاست میں شمولیت کا تناسب محض 0.2 فیصد ہے۔

گانگریس کے پلیٹ فارم سے صرف دس خواتین لوک سبھا میں گئیں۔دیگر سیکولر پارٹیوں میں بہوجن سماج، نیشنل کانگریس اور ترنمول کانگریس کی دو دو سماج وادی پارٹی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی ایک ایک مسلم رکن حکومتی ایوانوں میں آئیں۔
ہندوستان کی صرف سات ریاستوں اتر پردیش،مدھیہ پردیش،آسام،مغربی بنگال اور گجرات میں مسلم خواتین کی سیاسی نمائندگی تسلی بخش ہے۔

بھارت کی پہلی لوک سبھا میں 22،دوسری میں 19،تیسری میں 26،چوتھی میں 28، پانچویں میں 32، چھٹی میں 33 ،ساتویں میں 51،آٹھویں میں 48،نویں میں 31،دسویں میں 21،گیارھویں میں 24،بارھویں میں 27،تیرھویں میں 30،چودھویں میں 32، پندرھویں میں 30 اور سولہویں لوک سبھا میں 23 مسلمان عورتیں منتخب ہوئیں۔خواتین کو پارلیمنٹ میں 33 فیصد یعنی ایک تہائی ریزرویشن دینے کے لئے 12 ستمبر 1996ء کو خواتین ریزویشنس بل میں 81 ویں آئینی ترمیم پیش کی گئی تو اس کی زبردست مخالفت ہوئی تھی۔

مسلم سیاسی پارٹیوں میں ایک دو پارٹیوں کو چھوڑ کر کسی بھی پارٹی میں مسلم خواتین کے لئے کوئی خصوصی ایجنڈا نہیں ہے۔علاوہ ازیں اس ایک پارٹی کی پالیسی ساز باڈی میں انہیں نمائندگی تو ملی مگر پورے 60 برس میں کوئی بھی خاتون پارلیمنٹ یا اسمبلی نہیں پہنچی۔یعنی مسلم خواتین کا سیاسی امپاورمنٹ مسلم سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے سوچا ہی نہیں گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف مسلم سیاسی پارٹیوں کی تنگ سوچ یا عدم وسعت نظری کی وجہ سے مسلم خواتین سیاسی طور پر ڈس امپاور بنی رہیں،وہیں دوسری طرف پورے 73 برس میں دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے محض 18 مسلم خواتین ٹکٹ حاصل کرکے پارلیمنٹ پہنچ پائیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم خواتین کی اس ناقابل ذکر تعداد پر نہ مسلم سیاسی پارٹیوں اور نہ ہی دیگر سیاسی پارٹیوں کو سوچنے کی ضرورت پڑتی ہے۔


جب پارلیمنٹ میں خواتین کے 33 فیصد ریزرویشن کے بات ہوتی ہے تو اس میں مسلم خواتین کے لئے کوٹا در کوٹا کا ایشو بھی مسلم یا دیگر پارٹیاں نہیں اٹھاتی ہیں۔اس وقت ملت کی جو بڑی باوقار قابل ذکر تنظیمیں ہیں،ان میں جمعیت علماء ہند(ارشد مدنی)،جمعیت علماء ہند (محمود مدنی)،مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند،جماعت اسلامی ہند،آل انڈیاملی کونسل اعلاوہ ازیں شیعہ اور بوہرہ طبقوں میں بھی متعدد تنظیمیں سرگرم اور فعال ہیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مسلم تنظیموں،اداروں اور شخصیات کے 54 سالہ وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی ہیں۔یہ امر بھی کم چونکانے والا نہیں ہے کہ جماعت اسلامی ہند،آل انڈیا ملی کونسل،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی مسلم تنظیموں کے وفاق کو چھوڑ کر دونوں جمعیت علماء ہند اور مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند جیسی قدیم،پروقار اور تعداد کے لحاظ سے بڑی تنظیموں کے ڈھانچہ میں خواتین کو دور رکھا گیا ہے یہ نہ اس کی رکنیت اور نہ ہی اس کی فیصلہ ساز باڈیز میں کہیں شامل ہیں۔

ان تنظیموں کے دستوروں میں بھی خواتین کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔البتہ ان کے بڑے جلسوں اور میٹنگوں میں تقریروں کو سننے کے لئے خواتین کو ضرور بلایا جاتا ہے اور الگ سے پردے کا اہتمام کرتے ہوئے انہیں ان جلسوں اور میٹنگوں میں شرکت کرایا جاتا ہے۔یہ تینوں تنظیمیں مسلم تنظیموں میں سب سے قدیم ہیں اور تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی بھی ہیں۔
اس پر ان تنظیموں کے ذمہ دار ان کو غور وفکر کرنا چاہئے کیونکہ ملت میں خواتین کی تعداد کم و بیش نصف تو ہے ہی۔

لہٰذا ان کے مسائل اور ایشوز پر غور و فکر کے لئے ان تنظیموں میں خواتین کی شمولیت تو ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہو جاتی ہے۔مسلم کمیونٹی میں جو غیر سیاسی تنظیمیں اور ادارے خواتین کی تنظیموں میں شرکت،اپنی فیصلہ ساز باڈیوں میں ان کی نمائندگی اور ان کی سرگرمیوں اور عمل و دخل کے تعلق سے سنجیدہ اور حساس ہیں،ان میں جماعت اسلامی ہند،آل انڈیا ملی کونسل،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ہیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ قابل ذکر ہیں۔

ان تمام مذکورہ بالا غیر سیاسی مسلم تنظیموں میں جماعت اسلامی سب سے قدیم اور ملک گیر ہے۔تنظیم کے اندر شورائی نظام ہونے کے سبب پوری تنظیم جمہوری مزاج رکھتی ہے۔اسی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی تنظیموں میں جماعت اسلامی ہند واحد ایسی تنظیم ہے جہاں مکمل طور پر جمہوریت قائم ہے۔دستور جماعت اسلامی ہند میں جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے،ہر سطح پر یعنی مقامی،حلقہ اور مرکز میں خواتین کے شعبے موجود ہیں۔


مرکز اور ہر حلقہ میں سکریٹری کے ساتھ مشاورتی کمیٹی ہے۔مرکز میں 7 سکریٹریوں میں سے ایک خاتون ہیں۔جماعت میں 1955ء خواتین ہیں جبکہ اس کی 146 رکنی مجلس نمائندگا میں کل 22(15 فیصد) خواتین ہیں۔ضابطے کے مطابق،الگ الگ 70 ارکان پر ایک ایک ایک مرد و خاتون منتخب ہوتے ہیں۔فی الوقت مرکزی مجلس شوریٰ میں کوئی خاتون رکن نہیں ہیں مگر یہ خصوصی مدعوئین کے طور پر مرکزی مجلس شوریٰ کی میٹنگوں میں بلائی جاتی ہیں۔

ویسے مرکزی مجلس شوریٰ میں ان کے منتخب ہونے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔یہ منتخب ہو کر وہاں پہنچ سکتی ہیں۔علاوہ ازیں پورے بھارت میں 20 حلقوں میں 20 ناظمہ ہیں اور 7 حلقوں میں خواتین وہاں کی شوریٰ میں موجود ہیں۔ جماعت اسلامی ہند واحد تنظیم ہے جس میں خواتین صحیح معنوں میں امپاورڈ ہیں اور تنظیم کے جز کے طور پر سرگرم عمل ہیں۔تنظیم کے اندر ان کا اپنا نظم بھی قائم ہے جو کہ مرکزی اور مقامی سطح تک ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

India Main Muslim Khawateen Ki Siyasi Numaindagi Ka Almiya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.