جدید اسلحے کی دوڑ سے دنیا تباہی کے دہانے پر

بھارت اسلحے کی درآمد میں سر فہرست خانہ جنگی، نسل کشی اور قتل عام کے واقعات پر امن دنیا کے خواب کو چکنا چور کرنے لگے

جمعہ 18 مئی 2018

jadeed aslehay ki daur se duniya tabahi ke dhanay par
سید طاہر عباس
دنیا بھر میں جہاں ایک طرف جنگی طاقت میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں تو وہیں دوسری طرف جارحیت کے خطرات کے دفاع کا بندوبست بھی کیا جا رہا ہے۔2008ء سے 2012ء تک فروخت ہونے والے اسلحے کی کل مالیت کا تقریبا32 فیصد امریکی کمپنیوں نے کمایا۔ جرمنی نے اس عرصہ کے دوران اسلحہ کی فروخت سے دنیا کی تیسری بڑی مالیت حاصل کی جوعالمی فروخت کا 7 فیصدتھی۔

2011ء میں دنیا میں 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں چین کی کمپنیوں کے علاوہ نے410 ارب ڈالر مالیت کا بھاری اسلحہ فروخت کیا۔2009ء سے2013ء کے دوران امریکہ، روس، جرمنی، چین اور فرانس ان پانچ بڑے اسلحہ برآمد کنندگان نے عالمی مارکیٹ کا 74 فیصد حصہ کمایا۔کیا410 ارب ڈالر مالیت سے زائد اسلحہ سازی کی صنعت دنیا میں تنازعات کو ختم ہونے دے گی؟۔

(جاری ہے)

دنیا میں اس وقت جو ممالک امن کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، وہ خود اپنے ہاتھوں سے قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔

دنیا میں 2 کروڑ کے لگ بھگ افراد اپنے ممالک کو ابھرنے کا موقع ملے اور طاقت کا توازن بدل جائے۔ بھارت کی اسلحہ خریداری میں 2004 ء سے 2014ء تک تقریبا 117 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس عرصہ کے دوران بھارت نے عالمی سطح پر ہونے والی اسلحہ کی درآمدات کا 14 فیصد حاصل کیا۔ بھارت اپنے اسلحہ کی درآمدات کا75 فیصد روس، 7 فیصد امریکہ اور 6 فیصد اسرائیل سے حاصل کرتا ہے۔

دنیا میں اسلحہ کی تیاری اور حصول کا آخر کار نتیجہ انسانی ہلاکتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹریشنل کے مطابق1989ء سے اب تک دنیامیں سینکڑوں مسلح تصادم نے ہر سال کم از کم اڑھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بنایا ہے۔ تشدد،مسلح تصادم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب کچھ ان کے متضاد عوامل ہیں ۔جن کی وجہ سے ایک اور انسانی المیہ سرحدوں کے اندر اور سرحدوں کے باہر ہجرت کی صورت میں جنم لے رہا ہے۔

سرد جنگ کے اختتام پر تنازعات اور تشدد کے واقعات میں کمی کی امید کی جارہی تھی لیکن 9 / 11 کے واقعہ نے دنیا کو دہشت گردی کیخلاف ایک نئی جنگ سے متعارف کروادیا۔ دہشت گردی کیخلاف اس نام نہاد جنگ نے قیام امن کیلئے کی جانیوالی کاوشوں کو داوٴ پر لگا دیا ہے۔ پاکستان، افغانستان، عراق اور دیگر ممالک دہشت گردی کے خاتمہ میں کردار ادا کرنے کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔

2005ء میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے باعث ہونے والی 64 فیصد ہلاتیں ان تینوں ممالک میں ہوئیں۔2006ء میں یہ تناسب بڑھ کر 74 فیصد ہو گیا۔2007ء میں اس تناسب میں مزید اضافہ ہوا اور یہ 77 فیصد تک جا پہنچا۔ امریکہ کے نیشنل کا ونٹر ٹیررازم سینٹر کے اعداد وشمار کے مطابق2005ء سے 2011ء تک دنیا بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا آدھے سے زائد حصہ عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں پر مشتمل تھا۔

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستان کو دہشت گردی کے جس آسیب کا شکار بنایا اس عفریت نے اب تک لاکھوں افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر سامنے آیالیکن اس اتحاد سے پاکستان کو فائدہ کم، نقصان زیادہ پہنچا۔ ملک میں دہشت گردی کی ایسی لہراٹھی کہ انفراسٹر کچر کو ملیا میٹ کردیا، یہ لہر برآمدی سرگرمیوں اور سرمایہ کاروں کا اعتمادبھی بہا کرلے گئی۔

پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکاہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ہی سب سے زیادہ نقصان میں رہا تو غلط نہ ہوگا۔ ماضی کی طرح اس وقت بھی ان کو نقصان پہنچانے والے تنازعات موجود ہیں جن میں مسئلہ کشمیراور مسئلہ فلسطین سرفہرست ہے۔ افریقہ کے مختلف ممالک میں خانہ جنگی نسل کشی اور قتل عام کے واقعات وغیرہ بھی پرامن دنیا کے خواب کو چکنا چور کر رہے ہیں۔

یہودی تاجروں نے سیٹلائٹ ٹیکنالوی میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور وہ سوشلسٹ ممالک کو محدود رکھنے اور سردممالک کو گرم پانی سے دور رکھنے کے لئے عمل قوت اور صلاحیت استعمال کررہے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ اس جنگ کے لئے ارض پاک کی سرزمین استعمال کی جارہی ہے۔ دنیا میں ہر طرف انتشار اور افراتفری نظر آرہی ہے، ہر طرف بے چینی، نفسانفسی اور بے یقینی کا دورہے، ترقی پذیر ممالک میں لوگ جتھوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیں، ان جتھوں اور گروہوں کی اپنی ایک سوچ ہے، ان ممالک کے عوام کے متحد نہ ہونے کی وجہ سے غیرملکی قوتوں اور ملک دشمن عناصر کو اپنے عزائم کی تکمیل میں بڑی آسانی ہورہی ہے، اگر دیکھا جائے تو پوری قوم آپس میں متحارب ہے، ایسے حالات میں بڑے سے بڑا لیڈر بھی ملک وقوم کے مفادات کے لئے کھل کر کچھ بھی نہیں کرسکتا، کوئی رہنما کھل کر قوم کو اصل صورتحال سے آگا نہیں کرسکتا کہ وہ امریکہ نیٹو اور ایساف ممالک کے غیض وغضب کا شکار نہیں ہونا چاہتا، ایک کمزور ملک میں کسی بھی طاقت کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔

فرانس، چین، برطانیہ، سپین، اٹلی ، یوکرائن اور اسرائیل یہ دس ممالک کی فہرست ہے۔ جنہوں نے 2008ء سے 2012ء کے دوران اسلحہ کی فروخت کی عالمی مالیت کا مجموعی طور پر 87 فیصد حاصل کیا، ان ممالک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے وہ تمام مستقل ارکان موجود ہیں جو دنیا میں قیام امن کے مقاصد کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں جو ایک طرف امن کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف امن کو برباد کرنے والے ہتھیاروں کی فروخت میں مصروف ہیں۔

دنیا میں ایک سال کے دوران فوجی اخراجات میں 26 فیصد اضافہ عالی سکیورٹی کی صورتحال کی واضح نشاندہی کر رہا ہے کیونکہ کئی پرانے تنازعات کی موجودگی میں نئے تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں جو حال سے مستقبل تک عالمی امن کو متاثر کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور الجیریا، آسٹریلیا، امریکہ 2008 ء سے 2012ء کے دوران سب سے زیادہ مالیت کا اسلحہ خریدا۔

بھارت اس وقت دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ بھارت اسلحہ کے جو ڈھیر لگانے میں مصروف ہے اس کا پہلا ہدف پاکستان دوسرا خطہ میں اپنی دھونس اور بالا دستی قائم کرنا اور تیسرا ہدف ایک بڑی فوجی قوت کی صورت میں ابھرنا ہے۔ ایک تو ملک کی اندرونی سکیورٹی کو دہشت گردوں کی صورت میں در پیش چیلنجز اور دوسری بھارت کا بڑھتا ہوا جنگی جنون کیونکہ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کے یہ جارحانہ عزائم پاکستان کو اپنے اندرونی اور بیرونی دفاع کے لئے ہرممکن انتظام کرنے کے حوالے سے چوکس کئے ہوئے ہیں۔

سائنس کی ترقی اور جدت نے جہاں زندگی کو پرآسائش اور قابل رشک بنادیا ہے وہیں ایٹم بم، میزائل اور دیگر جدید ترین اسلحہ بنا کر اس کی تباہی کا سامان بھی فراہم کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ دنیا کی سپر پاورز کے درمیان سرد جنگ اختتام پذیر ہوگئی ہے لیکن ان کے درمیان جدید اور تباہ کن اسلحہ جمع کرنے کی دوڑ جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

jadeed aslehay ki daur se duniya tabahi ke dhanay par is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 May 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.