جاگیرداری نظام کی چھتر چھایا تلے انسانی حقوق کی پامالی

سندھ میں ظلم و جبر کا بھیانک سلسلہ اب زمین بوس ہونے کو ہے

منگل 23 نومبر 2021

Jageerdari Nizaam Ki Chattar Chaya Tale Insaani Huqooq Ki Pamali
آر ایس آئی
ناظم جوکھیو کا المناک قتل بلاشبہ کسی بھی عام سی موت،سانحہ اور حادثہ سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے حالانکہ بعض قتل صرف قتل ہوتے ہیں اور انہیں قاتل کے لئے قانون کی کتابوں میں داخل دفتر کرنا یا کرانا بے حد آسان اور سہل کام ہوتا ہے،عین ممکن ہے کہ فی الوقت پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو اس بات کا ادراک اور احساس نہ ہو سکے کہ یہ ایک ”قتل ناحق“ کس کس کے ہاتھ پر اپنے لہو کے چھینٹے تلاش کرنے کی صلاحیت و قوت رکھتا ہے مگر عن قریب جب پیپلز پارٹی بطور ایک سیاسی جماعت ناظم الدین جوکھیو کے قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی محرکات کا شکار ہو گی تو اسے بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ ناظم جوکھیو کا قتل صوبہ سندھ کے سیاسی منظر نامے پر اس کے سیاسی چہرہ پر کس قدر بدنما اور بھیانک داغ چھوڑ گیا ہے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ مقتول 27 سالہ ناظم الدین جوکھیو کا تعلق ملیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں آچر سالار جوکھیو سے تھا یہ سندھی نوجوان،ضلع کونسل کراچی میں ملازم تھا،مقتول نے بعد از مرگ اپنے پیچھے سوگواران میں ایک بیوہ،تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ناظم جوکھیو کے بچوں کی عمریں بالترتیب ایک سال سے 5 سال تک کے درمیان ہیں۔ناظم الدین کا جرم یہ تھا کہ اسے سائبیریا کے سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں سے شدید محبت تھی اس بے وقوف کو مہمان پرندوں سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے عرب شکاریوں کو مہمان پرندے تلور کے شکار سے باز رکھنے اور روکنے کی پاداش میں اپنی قیمتی جان تک بھی قربان کر دی۔

ناظم الدین جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو کے مطابق ”اس کے بھائی نے ابتداء میں عرب شکاریوں کو گاؤں میں تلور کا شکار کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن جب وہ انہیں نہ روک سکا تو اس نے ان کے شکار کرتے ہوئے بہیمانہ مناظر کی ایک ویڈیو بنا کر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر شائع کر دی۔
عرب شکاریوں کے شکار کی ویڈیو جب تیزی سے وائرل ہونے لگی تو علاقے کے جاگیردار اور عرب شکاریوں کے میزبان جام اویس گہرام جوکھیو کے ہرکاروں کی جانب سے مجھے دھمکی آمیز فون آنے لگے اور ایک ہی بات کا بار بار تقاضا کیا جانے لگا کہ جلد از جلد اس ویڈیو کو سوشل میڈیا سے ہٹا دیا جائے لیکن جب ناظم جوکھیو نے میرے کہنے کے باوجود بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ویڈیو ہٹانے سے صاف انکار کر دیا تو مجھے جام کے منیجر کا پیغام آیا کہ میں اُسے لے کر جام اویس گہرام جوکھیو کی اوطاق پر پہنچوں تاکہ اس قضیہ کا کوئی تصفیہ تلاش کیا جا سکے جب میں اپنے بھائی ناظم جوکھیو کو جام اویس کی اوطاق پر پہنچا تو وہاں موجود جام کے ملازموں نے میرے بے قصور بھائی ناظم پر لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ سے تشدد کرنا شروع کر دیا۔

میں نے جام سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی طلب کی لیکن جام صاحب نے کہا کہ ”کوئی معافی نہیں ملے گی تم لوگوں نے میرے مہمان کی بے عزتی کی ہے“۔
بعد ازاں انہوں نے ناظم جوکھیو کو زخمی حالت میں ایک کمرے میں بند کر دیا اور مجھے کہا کہ جاؤ صبح آ جانا اور اپنے بھائی کو لے جانا صبح میں اپنے بھائی کو گھر لے تو آیا لیکن اس وقت تک جام اویس گہرام کے ہرکارے اسے ہلاک کر چکے تھے“ ابتدائی تحقیقات میں بھی اب تک جو شواہد سامنے آئے ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اعجاز جوکھیو نے اپنے بھائی ناظم الدین جوکھیو کی ہلاکت تشدد سے ہونے کے جو مبینہ الزامات جام اویس گہرام جوکھیو پر لگائے ہیں وہ مبنی بر صداقت ہیں کیونکہ میڈیکولیگل رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ناظم جوکھیو کے پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے نیز سر،چہرے اور ہاتھ پاؤں پر بڑے بڑے نیل کے نشانات پائے گئے ہیں جبکہ پیٹھ اور جسم کے پچھلے حصے پر بھی رگڑ کے زخم موجود تھے علاوہ ازیں مقتول کے دونوں ہاتھوں پر کافی زیادہ سوجن تھی،دماغ کے اندر خون کے لوتھڑے ملے،سر پر چوٹ کے نشانات موجود ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے یعنی سادہ الفاظ میں ناظم الدین جوکھیو کو شکار کی ایک ویڈیو بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر شائع کرنے کے معمولی سے جرم میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔


صوبہ سندھ خاص طور دیہی سندھ میں اپنے مخالفین کا دماغ اور جسم ٹھکانے لگانے کے لئے زیادہ تر وہی طریقہ واردات اختیار کیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں جس کا شکار بدقسمت ناظم جوکھیو ہوا مگر اس مرتبہ صوبہ بھر سے اس حادثہ کے خلاف ردعمل دیکھنے میں آیا ہے اس نے سندھ میں صدیوں سے قائم جاگیرداری نظام کو پہلی بار واقعی عوام اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے خاص طور پر دیہی سندھ کی عوام کی جانب سے ناظم جوکھیو کے قتل کا سبب بننے والے جاگیردارانہ نظام سے جس قدر اپنی شدید نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر امید پیدا ہونے لگی ہے کہ سندھ میں بہت جلد ظلم و جبر کی بنیادوں پر استوار جاگیرداری نظام منہدم اور زمین بوس ہونے کو ہے بظاہر ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے مبینہ طور پر اپنے بھائی کے قتل کا براہ راست الزام رکن سندھ اسمبلی پیپلز پارٹی جام اویس گہرام جوکھیو پر عائد کیا ہے۔

سندھ کی عوام کو اب آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی ہے کہ جام،جاکھرانی اور نظامانی سرداروں کو ظلم و ستم کرنے کی تمام طاقت جاگیردارانہ نظام سے ہی حاصل ہوتی ہے اور اس ظلم و ستم کو ختم کرنے کا بس ایک یہ ہی راستہ ہے کہ کسی طرح ان نام نہاد سرداروں کے سروں سے جاگیرداری نظام کی چھتر چھایا کھینچ لی جائے یہ پیشگوئی تو نہیں کی جا سکتی کہ آئندہ چند ماہ میں جاگیرداری نظام کا سندھ سے مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا لیکن ایک بات ضرور پورے تیقن اور شرح صدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کم از کم دیہی سندھ میں جاگیرداری نظام کے خاتمہ کی ایک خاموش اور زبردست عوام تحریک ضرور جنم لے چکی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کل تک جو لوگ جاگیردارانہ نظام کو اپنی غیر مشروط جاہلانہ اطاعت سے قوت و طاقت مہیا کرتے تھے آج ان ہی محکوم لوگوں کی نوجوان نسل سوشل میڈیا پر جاگیرداروں کے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انہیں چیلنج کر رہی ہے اگر جاگیرداری نظام کے پرودہ سمجھیں تو یہ واقعی ایک بہت بڑی بات ہے اور ہم یہ اُمید قائم رکھ سکتے ہیں کہ نظام الدین جوکھیو کا خون ناحق ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سندھ دھرتی پر فرسودہ اور ظالمانہ جاگیرداری نظام کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائے گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jageerdari Nizaam Ki Chattar Chaya Tale Insaani Huqooq Ki Pamali is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 November 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.