
جاوید منزل کی تاریخی اہمیت
اس گھر کی بنیادی چیز جو سب سے پہلے آپ کی توجہ کھینچتی ہے وہ علامہ اقبال کا مجسمہ ہے جو باہر لان میں ایک چبوترے پر ایستادہ ہے۔
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری
ہفتہ 26 دسمبر 2020

یہ بات ہے 1977 کی جب پاکستان میں علامہ محمد اقبال کا صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا تھا، اسی مناسبت سے حکومتِ پاکستان نے اقبال منزل سیالکوٹ، اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور لاہور میں علامہ اقبال روڈ پر واقع جاوید منزل کو تحویل میں لے کر محفوظ کرنے کا سوچا۔ ان تینوں عمارتوں کو خرید کر مناسب مرمت کے بعد میوزیم میں بدل دیا گیا۔ اس میوزیم کا افتتاح اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے کیا تھا۔
مئی 1935ء میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور ان کے اہل خانہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے جاوید منزل میں منتقل ہو گئے جو آپ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے اپنی زیرِ نگرانی تعمیر کروائی تھی۔
۔ 1935 کو سردار بیفم کی وفات بھی اسی گھر میں ہوئی تھی اور یہ گھر بھی آپ نے انکی خواہش پر تعمیر کرایا تھا۔
(جاری ہے)
آخری عمر میں ملنے والے اس خوبصورت گھر کو علامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے جاوید کے نام سے موسوم کر دیا اور آج اسی سات کنال کی جاوید منزل کو ''علامہ اقبال میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حکومت جاپان نے اس ضمن میں ایک احسن اقدام اٹھاتے ہوئے اقبال میوزیم کے لیے جاپان کے ثقافتی فنڈ سے شوکیسوں اور ائیر کنڈیشنروں کے علاوہ متعلقہ سامان اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے ایک بڑی رقم مہیا کی۔ میوزیم کی تیاری کے بعد اسے محکمہ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا گیا ،جو اب بھی اس کی تحویل میں ہے۔

سفید رنگ کی سادہ اور دلکش سی یہ عمارت ،اقبال میوزیم، 9 گیلریوں پر مشتمل ہے۔ میوزیم میں علامہ کی کئی اشیا موجود ہیں، جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال نے میوزیم کو عطیہ کی تھیں۔ ان اشیاء میں اقبال کا پاسپورٹ، دستخط کی مہر، ملاقاتی کارڈوں والا بٹوا، بنک کی کتاب، عینکیں ، بٹن، انگوٹھیاں، کف لنکس، راکھ دان، پگڑی، قمیض، جوتے، کوٹ، تولیے ، چھڑیاں، ٹائیاں، کالر، دستانے، کُلاہ ، لنگی ، وکالتی کوٹ ، جناح کیپس، گرم سوٹ جو لندن کی ریجنٹ سٹریٹ سے سلوائے گئے تھے۔ پشمینہ شیروانی، حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجا سرکرشن پرشاد کی جانب سے ارسال کردہ قالین، قلم، مسودے،خطوط، دستاویزات، پاسپورٹ، آپ کی حاصل کردہ ڈگریاں اور اسناد ، تصاویر، سونے کی گھڑی اور متعدد دیگر اشیاء شامل ہیں۔

اس گھر کے تین کمروں کو ہو بہو رکھا گیا جن میں ایک رہنے کا کمرہ ہے جہاں اقبالؒ کی چارپائی ، کتابوں کی الماری ، کیروسین لیمپ ، شیونگ کا سامان اور ادویات رکھی گئی ہیں۔

آخری کمرہ کھانے کا کمرہ ہے جہاں ایک بڑی کھانے کی میز ، کرسیاں ، سنگھار میز، برتن رکھنے والی الماری اور خوبصورت چینی و دھات کے برتن رکھے گئے ہیں جو آپ کے زیرِ استعمال تھے۔

1977 میں حکومتِ پاکستان نے اسے قومی ورثہ قرار دے دیا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Javed Manzil Ki Tareekhi Ehmiyat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.