کالا باغ ڈیم متنازعہ کیوں؟

پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کو دوسروں کے پیسے سے ڈیم بنانے کا کوئی حق نہیں۔

منگل 10 جولائی 2018

kalabagh dam mutanazia kyun
کے پی کے‘ سندھ کو کیا خطرہ چیف جسٹس معترضین سے جواب طلب کریں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کو دوسروں کے پیسے سے ڈیم بنانے کا کوئی حق نہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس تھے” لوٹی ہوئی دولت واپس آ جائے اسے نئے ڈیمز بنانے پر خرچ کیا جائے گا۔ خورشید شاہ کا اول تو یہ کہنا ہی خلاف حقیقت ہے کہ لوٹی ہوئی دولت
کسی دوسرے کی ہے کہ کرپشن کے ذریعہ رشوت ستانی کے ذریعہ یابینکوں سے معاف کرانے کے عمل کے ذریعہ ا پنی تجوریوں میں بھری گئی ہے اس لئے یہ ساری دولت قوم کی ملکیت ہے اور قوم کی دولت کسی بھی قومی منصوبے پر خرچ کرنا اس سے بہتر مصرف ہوہی نہیں سکتا۔

یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں جولوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ان عناصر میں شامل ہیں جو اس فعل قبیح مذموم کے لئے بھارت کی جانب سے سالانہ 12 ارب روپے میں سے حصہ وصول کرنے والے ہیں بلکہ انہیں دو طبقات میں شامل کیا جا سکتا ہے اول وہ لوگ جوحقیقت سے نابلد ہیں اور اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے سندھ کو ملنے والا پانی پنجاب میں روک لیا جائے گا جس سے سمندر کا زمین کی جانب بہاوٴ روکنے کیلئے جو غالباََ پندرہ ا یکڑ مکعب فٹ پانی دریائے سندھ میں درکار ہے وہ نہ ہونے سے سمندر کا پانی باہرنکل آئے گا اور دادوں وغیرہ کے علاقے ڈوب جائیں گے۔

(جاری ہے)

حالانکہ خود سندھ کے آبی انجینئر اس بے بنیاد تاثر کیانفی کر چکے ہیں جس طرح کالا باغ ڈیم کے حوالے سے نوشہرہ ،چاردسدہ ڈوبنے کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ حالانکہ کالا باغ ڈیم کے سب سے بڑے حامی واپڈا کے سابق چیئر مین شمس الملک کا اپنا ذاتی گھر نوشہرہ میں ہے کیا وہ خود اپنا گھر ڈوبنے کی حمایت کر رہے ہیں۔
سوشل میڈ یا پرکالا باغ ڈیم کے حق میں جو ہم چل رہی ہے وہ ایک ہزار فیصد ملک وقوم کے مفاد میں ہے۔

عوام الناس کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ بھارت نے ستلج، بیاس اور راوی کوسو فیصد کنٹرول کر لیا ہے۔ ستلج اور بیاس کے کنٹرول ہونے سے چولستان کی 30 لاکھ ایکڑ اراضی بنجر ہو گئی راوی پر کنٹرول سے لاہور اور گردونواح میں جو پانی 90فٹ کی گہرائی پر ملتا تھا اب 760فٹ پر بھی نہیں مل رہا‘ اپریل 2018ء میں بھارت کی جانب سے اس بنیاد پر اسے پانی روکنے کا حقدار سمجھا گیا کہ اس نے موقف پیش کیا کہ پاکستان 32 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع کر رہا ہے اس لئے ہم دریائے سندھ پر جوڈیم بنائیں گے اس سے پیدا ہونے والی گندم، چاول اور سبز یاں و پھل غریبوں میں مفت تقسیم کر یں گے“ اگر چہ بھارت نے غریبوں کا نام لے کر دھوکا دینے کی کوشش کی ہے مگر سندھ کے عوام اس پر غور کریں کہ اگر بھارت نے ڈیم بنا کر دریائے سندھ کا پانی بھی ستلج، بیاس اور راوی کی طرح کنٹرول میں لے لیا تو سندھ کا حشر کیا چولستان جیسا نہیں ہو گا جو وڈیرے کالا باغ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں ان کی زمینیں کیسے سیراب ہوں گی اور وہ خوشاہانہ زندگی سے کیسے لطف اندوز ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تربیلا ڈیم بننے لگا تو سندھ سے آوازیں اٹھیں ہماری لاشوں پر بنے گا مگر جب بن گیا تو سندھ کی 27 لاکھ ایکڑ اراضی اس سے ہی سیراب ہورہی ہے۔ کہا جاتا ہے کالا باغ ڈیم تنازع ہے دوسرے ڈیمز بنا لئے جائیں۔ بالخصوص بھاشا ڈیم کی بہت بات کی جاتی ہے پہلی بات تو یہ کہ عالمی بینک نے اسے بھارت کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا ہے اور بھارت ایسا سرٹیفکیٹ کیوں دے گا دوسرے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بھاشا کالا باغ سے 3ہزارفٹ‘ اکھوڑی ایک ہزار فٹ ‘دا سودو ہزار فٹ اور بونجی سولہ سوفٹ بلندی پر ہے اس کے نیچے بارش اور گلیشر سے آنے والا پانی اور کا بل سوات دریاوں کا اٹک کے مقام پر سندھ میں ملنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے اس بلندی پر کیسے لے کر جایا جائے گا جبکہ کالا باغ ڈیم میں بآسانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے یہ قدرت کی طرف سے انمول تحفہ ہے جس سے 3600 میگا واٹ بجلی فوری پیدا ہوگی جو بڑھ کر 4500 میگا واٹ ہوسکتی ہے پھر مزید خوش آئند یہ کہ یہ صرف 2 روپے یونٹ پڑے گی جس کا سب سے زیا د ہ فائدہ سندھ کو ہوگا۔


 تحریک استقلال کے مرکزی صدررحمت خان وردگ نے جن کا آبائی گھر اٹک میں ہے اے این پی کے معروف لیڈر سے سوال کیا کہ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ کالا باغ ڈیم سے کے پی کے کو بہت زیادہ اور پنجاب سے تو ہیں زیاد و فا ئدہ ہوگا پھر وہ اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ انہوں نے بڑی صاف گوئی سے کام لیا یہ ہماری سیاسی ضرورت بن گئی ہے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے محض سیاسی ضرورت کے لئے ایسے قومی منصوبے کی مخالفت کی بات جس سے سندھ واٹر کونسل کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم سالانہ 20 ارب روپے کی بجلی پیدا کر سکتا ہے جس سے سالانہ 300 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

جہاں تک خیبر پختونخواہ کا تعلق ہے کالا باغ ڈیم سے ڈیرہ اسماعیل خان ، کرک ، بنوں اور لکی مروت کی 24 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہوگی اس سے یہ صوبہ گندم اور چاول میں خودکفیل ہوگا اب صورت یہ ہے کہ پہلے خیبر پختونخواہ پنجاب سے 15 لاکھ ٹن گندم لیتا تھاآج 18 لاکھ ٹن لے رہا ہے مگر سیاسی ضرورت کی خاطر صوبے کوخودکفیل ہونے سے محروم کیا جارہا ہے۔ سیاستدان یا سیاسی حکومتیں تو سیاسی مصلحتوں کی بنا پر اتفاق رائے کی رٹ لگا کر یہ کام نہیں کریں گی چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے گزارش ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ اور سندھ کے ان لوگوں کو کھلی عدالت میں طلب کریں جو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بے شک وکلا کی جگہ آبی ماہرین لے کر آئیں اور اگر وہ ثابت کر دیں کہ کالا باغ ڈیم سے واقعی سندھ اور خیبر پختونخواہ کو نقصان ہے اس سے دا وو اورنوشہرہ واقعی ڈوب جائیں گے تو پھر بے شک کالا باغ ڈیم کو قصہ ماضی قرار دیکر طاق نسیان میں رکھ دیا جائے۔

جناب چیف جسٹس نے یہ کام کر دیا تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بعد دوسرے محسن پاکستان ہو گئے۔ !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

kalabagh dam mutanazia kyun is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.