مادرملت محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ

127ویں یوم ولادت پر ملک وقوم کا اخراج عقیدت

بدھ 31 جولائی 2019

Madar e millat Mohtarma Fatima Jinnah RA
 شاہد رشید
جب بھی ہم تحریک پاکستان کا ذکر کریں گے تو اس عظیم جدوجہد کے قائدین میں سر فہرست مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ کا اسم گرامی آئے گا جنہوں نے بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کے دوش بدوش تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور برصغیر کی مسلم خواتین میں بیداری پیدا کی اور انہیں متحرک و منظم کرکے ان میں تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا عزم پیدا کیا۔

ان کی زندگی کا بڑا حصہ قائداعظم رحمة اللہ علیہ کی رفاقت میں گزرا۔بانی پاکستان کی وفات کے بعد بھی وہ ملک وقوم کے لیے انتہائی گراں قدر اور قابل ستائش خدمات سر انجام دیتی رہیں۔وہ بیباک ،معاملہ فہم اور زیرک خاتون تھیں۔انہوں نے اپنی تمام زندگی اصولوں کی سر بلندی کے لیے وقف کئے رکھی۔

(جاری ہے)


وطن عزیز پاکستان کی یہ ہر دل عزیز خاتون 31جولائی1893ء کو کراچی میں جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئیں۔

ابھی دو برس کی تھیں کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔قائداعظم رحمة اللہ علیہ ان دنوں انگلستان میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔مادر ملت رحمة اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی‘بعد میں پرائمری سکول میں داخلہ لیا۔جب آٹھ برس کی ہوئیں تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔اس کے بعد قائداعظم رحمة اللہ علیہ نے آپ کی تعلیم وتربیت کا فرض اپنے ذمے لے لیا۔

اس زمانے میں کسی مسلمان لڑکی کیلئے انگریزی طرز تعلیم آسان نہ تھا مگر قائد اعظم رحمة اللہ علیہ نے بڑی جرأت سے کام لیا اور انہیں ایک کانونٹ سکول میں داخل کرایا گیا۔بعد میں آپ بمبئی کے مختلف سکولوں میں زیر تعلیم رہیں۔میٹرک کے بعد مادر ملت رحمة اللہ علیہ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا۔
کچھ عرصہ گھر پر مطالعہ کرتی رہیں اور بعدازاں 1919ء میں دندان سازی کی تربیت حاصل کرنے کلکتہ چلی گئیں۔

دو برس کے بعد تعلیم مکمل کرکے آپ بمبئی واپس آئیں اور 1929ء تک پریکٹس کی۔
1930ء میں جب قائداعظم رحمة اللہ علیہ کول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے تو مادر ملت رحمة اللہ علیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔لندن سے واپسی پر جب قائداعظم رحمة اللہ علیہ نے 1935ء میں مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو مادر ملت رحمة اللہ علیہ بھی عملی سیاست میں فعال ہو گئیں۔


مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے جب قائداعظم رحمة اللہ علیہ کی قیادت میں پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی تو اس جدوجہد میں ہر مقام پر مادر ملت رحمة اللہ علیہ اپنے بھائی کے دوش بدوش رہیں۔چنانچہ جب مارچ 1940ء میں مسلم لیگ نے اپنے تاریخی اجلاس میں قرار داد لاہور منظور کی تو مادرملت رحمة اللہ علیہ نے بر صغیر بھر کی مسلم خواتین کو متحرک اور منظم کرنے کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔

اس دوران آپ نے اگست 1942ء میں کوئٹہ میں خواتین کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”ہم مسلمان بہت چین کی نیند سوچکے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوم نے ہمیں کمزور سمجھ کر دبانا شروع کر دیا۔اگر ہم کچھ دن اور نہ جاگتے تو ہمارا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری بقا ہماری قوت پر منحصر ہے۔اسی خیال سے مسلم لیگ نے اپنے اجلاس منعقدہ23مارچ 1940ء میں قرار دادلاہور منظور کرکے الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے ۔

پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کی سیاسی مشکلات کا حل ہے“۔قرار داد لاہور کی منظوری کے بعد قائداعظم سیاسی محاذ پر از حد مصروف ہو گئے تھے۔اس وقت پوری قوم کو ایک نصب العین کے حصول کے لیے صف آرا کرنے کا مسئلہ در پیش تھا۔ایسے عالم میں مادر ملت رحمة اللہ علیہ نے خواتین کو منظم کرنے کا کام کیا اور نہایت قلیل عرصے میں برصغیر کی تمام مسلم خواتین کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

مادر ملت رحمة اللہ علیہ کا کہنا تھا کہ خواتین اپنے اندر نظم وضبط پیدا کریں کیونکہ خواتین کے تعاون کے بغیر پاکستان کا قیام ممکن نہیں۔
20فروری1929ء کوبابائے قوم حضرت قائداعظم رحمة اللہ علیہ کو عالم شباب میں اپنی اہلیہ محترمہ مریم جناح رحمة اللہ علیہ کی وفات کا جانکاہ صدمہ سہنا پڑا۔اس وقت محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ نے اپنے بھائی کی گھریلو اور معاشرتی پریشانیوں کا دلسوزی سے احساس کیا اور وہ ان کی خدمت پر کمر بستہ ہو گئیں۔

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ ایک فقید المثال خاتون خانہ ہی نہیں تھیں بلکہ سیاست کے میدان میں بھی انہوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔وہ سیاسی معاملات میں اکثر قائداعظم رحمة اللہ علیہ کے ساتھ مشاورت میں شامل رہتیں ‘ان کے پروگرام مرتب کرتیں۔وہ قائداعظم رحمة اللہ علیہ کی بہن ہی نہ تھیں،مخلص دوست ،دردمند ساتھی،بہترین مشیر‘حوصلہ بخش رفیق اور عظیم طاقت ثابت ہوئیں۔

اس کا اعتراف خود قائداعظم رحمة اللہ علیہ نے متعددمواقع پر کیا۔
مادر ملت کی عملی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کے ساتھ ہوا۔لیگ کی تنظیم نوکے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ کی بمبئی پروانشل مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا ممبر چناگیا۔1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ”سنٹرل ویمن سب کمیٹی “کے لیے منتخب کیا گیا اور اس عہدے پر آپ قیام پاکستان تک فائز رہیں۔

اُنہی کے ایماء پر دہلی میں فروری 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ ویمن سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا ۔آل انڈیا مسلم ویمنز کانفرنس کو بھی محترمہ کی سر پرستی حاصل تھی ۔اُس دور کی نامور مسلمان خواتین نے مادرملت کی رہنمائی میں مسلم سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔
یہاں پر امر قابل ذکر ہو گا کہ 1937ء کے لیگ سیشن میں مسلمان خواتین کو باقاعدہ لیگ میں شامل کرنے کے لیے ابتدائی کام کا آغاز کر دیا گیا تھا اگر چہ لیگ کے کھلے اجلاس میں خواتین کی باقاعدہ شمولیت کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

البتہ بعدازاں ‘پٹنہ کے لیگ سیشن میں 32مسلمان خواتین پر مشتمل‘مرکزی سب کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی جس میں بمبئی سے محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ کو ممبر چنا گیا تھا۔
مرکزی کمیٹی کا پہلا سالانہ اجلاس 1938ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں محترمہ کا حصہ قابل رشک تھا۔اس اجلاس میں ملک بھر سے مسلمان خواتین نے حصہ لیا۔اس موقع پر جہاں بیگم مولانا محمد علی جوہر‘بیگم نواب حفیظ الدین اور بیگم نواب بہادر یار جنگ نے خطاب کیا‘وہاں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ نے بھی خطاب فرمایا۔

محترمہ کی حوصلہ افزائی نے اجلاس کے شرکاء میں خوشگوار اثرات مرتب کیے۔اپریل 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ‘مدراس‘میں بھی مسلمان خواتین کی شرکت دیدنی تھی۔اس موقع پر”آل انڈیا ویمنز سنٹرل سب کمیٹی“کی ازسر نو تشکیل کی گئی۔اس مرتبہ 35خواتین پر مشتمل خواتین کے اسماء سامنے آئے جن میں محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ کو دوسری بار بمبئی کے حلقہ سے چنا گیا۔


اس کمیٹی کے تیسرے انتخابات1943ء میں ہوئے ۔اس مرتبہ لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی کے موقع پر ”ویمنز سنٹرل کمیٹی “کے نئے ممبر چنے گئے لہٰذا مدراس اجلاس کی قرار داد کی روشنی میں اس مرتبہ 38خواتین کے نام سامنے آئے جن میں محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ کو بمبئی کے حلقے سے مسلسل تیسری مرتبہ چنا گیا۔یوں‘محترمہ لیگ کی تنظیم نوسے قیام پاکستان تک نہ صرف مسلمان خواتین کی سیاسی جدوجہد ‘لیگ کی نشوونما بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے عظیم بھائی کی خدمت میں بھی مصروف عمل رہیں۔


1947ء میں اپنی سرکردگی میں انہوں نے کراچی میں”ویمن ریلیف کمیٹی“قائم کی جس نے بھارت سے نقل مکانی کرنے والی ہزاروں مسلمان خواتین کی دیکھ بھال کی۔اس کمیٹی کو بعدازاں ”آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن “کا نام دیا گیا۔قائداعظم رحمة اللہ علیہ نے ایک موقع پر اپنے ملٹری سیکرٹری ‘کرنل برینی کو اپنی عظیم بہن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:”وہ اپنی بہن کی سالہا سال کی پر خلوص خدمت اور مسلمان خواتین کی آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کی وجہ سے اُن کے انتہائی مقروض ہیں۔

“مادر ملت رحمة اللہ علیہ کی عظمت کا قائداعظم رحمة اللہ علیہ سے بڑا گواہ کون ہو سکتا ہے ۔وہ نہایت نرم دل اور خوش اخلاق خاتون تھیں جو قائداعظم رحمة اللہ علیہ کی طرح پابندی وقت کا خیال رکھتیں۔وہ قومی مسائل پر اکثر بے لاگ تبصرہ اور اظہار خیال کیا کرتی تھیں۔انہوں نے ہمیشہ حکمرانوں کے آمرانہ عزائم اور طریق کار کی شدید مخالفت کی ۔
محترمہ فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جمہوری اقدار کی بقاء اور فروغ کے لیے پیرانہ سالی کے باوجود جو جدوجہد کی‘وہ ہماری قومی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے۔

آپ نے حزب اختلاف کی جانب سے ایوب خان مرحوم کے خلاف کی جانب سے ایوب خان مرحوم کے خلاف صدارتی امیدوار بننا منظور کر لیا اور پھر قائداعظم رحمة اللہ علیہ کی طرح قوم کی امنگوں اور امیدوں کا محور ومرکز بن گئیں۔مادر ملت رحمة اللہ علیہ نے انتخابی مہم کے سلسلے میں ملک کے دونوں حصوں(مغربی اور مشرقی پاکستان)کے طوفانی دورے کئے۔اور اپنی پر مغز اور قوم ساز تقاریر سے عوام کے اندر تحریک پاکستان کا ولولہ پیدا کیا۔

آپ جہاں بھی گئیں‘عوام کی جانب سے فقید المثال استقبال کیا گیا۔9جولائی 1967ء کو حق وصداقت کی یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔وہ رات کو اچھی بھلی سوئیں اور صبح بیدار نہ ہوئیں۔مادر ملت رحمة اللہ علیہ کی رحلت سے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا۔آپ کو مزار قائداعظم رحمة اللہ علیہ کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Madar e millat Mohtarma Fatima Jinnah RA is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 July 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.