مدر لینگوئج ڈے

وہ ممالک جہاں پر بچوں کو ابتدائی تعلیم ماں بولی میں دی جاتی ہے دراصل بچوں کے ماں بولی میں حاصل شدہ علم کو سکول کی تعلیم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ سکول میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا

افتخار بھٹا منگل 19 فروری 2019

mother language day
ماں بولی کی اہمیت انسانی زندگی میں کلیدی مقام رکھتی ہے کیونکہ یہی زبان ہے جو کہ بچہ جس کی مدد سے ماحول کے ساتھ اپنے تعلق کو شناخت کرتا ہے یا انسان کا اسکے ساتھ تعلقات کا آغاز ہوتا ہے اوائل عمر میں سکول جانے سے پہلے ہر بچہ اڑھائی سے تین ہزار الفاظ سے واقفیت کر چکا ہوتا ہے یعنی سکول جانے سے پہلے وہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے اور بعد میں اسکا واسطہ کتاب اور استاد سے پڑتا ہے اسکے پاس الفاظ کا ذخیرہ ماں بولی کی صورت میں موجود ہوتا ہے وہ ممالک جہاں پر بچوں کو ابتدائی تعلیم ماں بولی میں دی جاتی ہے دراصل بچوں کے ماں بولی میں حاصل شدہ علم کو سکول کی تعلیم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ سکول میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا ہے۔ اور کتابیں اسے اپنی اپنی لگتی ہیں اور پڑھائی اسکے لئے رو ز مرہ کا معمول بن جاتی ہے جن ممالک میں تعلیم ماں بولی میں نہیں دی جاتی ہے، وہاں بچوں کو ابتداکے الفاظ کو ترک کرنا پڑتا ہے جس سے بچے کی ذہنی نشو نما پر اثر پڑتا ہے پھر دوسری زبانوں میں کتابیں اچھی لگتی ہیں جن کے ساتھ قلبی تعلقات ہونے سے مشکلات حائل رہتی ہیں اور بہت سے بچے اس اجنبیت کی وجہ سے سکول سے بھاگ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


 اکیس فروری کا مادری زبان کا دن بنگال کی سیاسی جدو جہد کی یاد گار ہے بنگالیوں کو اپنی زبان اور کلچر پر ہمیشہ بڑا فخر رہا ہے انکی اس جدو جہد کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور آج یہ دنیا پوری دنیا میں منایا جاتا ہے پاکستان کے قیام کے وقت سے بھی زبانوں اور انکی اہمیت کے حوالہ سے گمراہ کن پالیسی اختیار کی گئی ہندو مسلم تضاد کے حوالے سے سینٹرل ہندوستان کے مسلمانوں نے اردو کو اپنی پہچان بنا لینے کا سیاسی فیصلہ پاکستان بننے سے پہلے لے لیا پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت نے پاکستان میں اسلام اور اردو نافذ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس کا شدید رد عمل ہوا جس میں بنگال نے نمایاں کردار ادا کیا اور آخر بنگلہ دیش بن گیا کیونکہ انہوں نے اردو کے نفاذ میں چھپے ہوئے سیاسی کنٹرول کو قبول کرنے سے مکمل انکار کر دیا اور نفاذ پر غیر ضروری زور سے پاکستان 100فیصد لیٹریسی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے تمام تر سرمایہ کاری کے باوجود اردو میں تخلیقی لٹریچر سکڑ رہا ہے جبکہ مقامی علاقائی زبانیں اور ادب تیزی سے پھیل رہا ہے اردو سرکاری موقف اور خبر دی کہ زبان بن گئی ہے۔

 خدمت کی قومی لسانی پالیسی نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور ملک کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبانیں مان لینا چاہیے پنجاب کے حکمران طبقہ پنجابی کی جگہ اردو کی وکالت کرتا ہے جسکی وجہ سے پرائمری میں پنجابی زبان کو سلیبس میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ یہ سہولت پختون خواہ سندھ اور بلوچستان میں دی گئی ہے پاکستان میں اردو کے نفاذ اور شدت پسندی پر مبنی سیکیورٹی پالیسی اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غربت اور جہالت سے نجات نہیں ہو رہی ہے اور تصادم نے جہادی رنگ لے لیا ہے شدت پسندی نے اتنی طاقت پکڑ لی ہے کہ ملک میں علم امن علاقائی تعاون اور کی ہر آواز کو دبانے کی کوشش چل نکلی ہے۔

 پاکستان میں شدت پسندوں کو ہیروبناکر پیش کیا جانے لگا ہے۔ سندھ سے ایک طرف کی سوچ صوفیانہ اور دوسری طرف شدت پسند انہ ہوتی جا رہی ہے ۔سرائیکی لگوں کی آواز سننا ضروری ہے پنجابی زبان کے حوالے سے سب سے تازہ ترین تعصب لاہور میں منعقدہ لاہور لابرئیری فیسٹول کے حوالہ سے سامنے آیا جس کی تقریبات لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقد ہو رہی ہے جس میں پنجابی زبان کے حوالے سے منعقد ہونے والی ادبی نشستوں کا تہہ صاف کر دیا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پنجابی زبان کو سب سے کمزور اور مظلوم بنا دیا گیا ہے پاکستان میں پنجابی زبان کے فروغ کے حوالہ سے جدو جہد کرنے والے ادارے مسعودکھدر پوش ٹرسٹ اور شخصیات تعریف داد کے مستحق ہیں۔

 اکیس فروری 1952کی یاد میں منایا جانے والا عالمی ماں بولی کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ڈھاکہ میں کی جانے والی غلطی کو جاری رکھنا غیر ضروری ہے پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو جان لینا چاہیے کہ آض تک کسی بھی ملک نے ماں بولی کے علاوہ 100فیصد شرح خواندگی ٹارگٹ حاصل نہیں کیا ہے دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس نے علم سائنس ٹیکنالوجی میں بڑا مقام حاصل کیا ہو اور وہاں ابتدائی تعلیم ماں بولی میں نہ ہو اسلئے اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو زمینی حقیقتوں کو مان کر چلنا ہوگا ورنہ غلطی پر غلطی اور ناکامی کے بعد ناکامی مقدر بن جائے گی۔

ہمیں اب پنجابی زبان اور ثقافت کی گونج پنجابی صوفی شعراء اور پنجابی کے گانوں میں سنائی دیتی ہے معذرت کے ساتھ اب یہ قوالوں اور گلوکاروں کی زبان بن چکی ہے ماضی کے تھیڑ میں عنایت حسین بھٹی اور دیگر گلو کاروں نے فوک گیت اور صوفیانہ شاعری کے ذریعہ پنجابی زبان کے سافٹ کلچر صوفی ازم کو ابھار کر زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے ۔
 اس طرح پنجابی زبان جس کو ہندوستان سے مہاجرت کرنے والے تہذیب یافتہ افراد ایک غیر مہذب زبان قرار دیتے ہوئے نہیں دکھتے تھے ان کے سامنے پنجابی زبان و ثقافت کا ابھار ایک اہم نفسیاتی مسئلہ رہا ہے ماضی میں متحدہ ہندوستان میں اشرافیہ کی زبان عربی رہی ہے جو کہ بعد میں فارسی میں تبدیل ہو گئی تھی انگریزوں نے نظریہ ضرورت کے تحت لشکری زبان اردو کو تخلیق کیا ماضی میں سکھوں اور ہندؤں کے مسلمانوں کے ساتھ پر تعصب رویے بھی پنجابی زبان سے دوری کی وجہ رہے ہیں ہمارے پنجابی حکمرانوں نے مادری زبان کو کبھی پرائمری سکول کے نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی صوبائی سطح پر اس کی کبھی سر پرستی ہوئی ہے ۔

21فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے بالخصوص شہروں صوبہ پنجاب میں چند پنجابی سر گرم کارکن جلسے جلوس کرتے اور حکومت سے پنجابی زبان کو نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
 سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے لاہور میں پلاک (پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئچ ) کا ادارہ قائم کیا تھا جس کی ڈائریکٹر جنرل صغراں صدف ہے جو پنجابی کی نامور دانشور اور شاعرہ ہے وہ ادارہ میں پنجابی زبان و ثقافت کے حوالے سے پروگراموں میں شاعروں اور ادیبوں کے فن پاروں کو متعارف کرواتی رہتی ہے اور س حوالے سے دانشوروں کو دعوتیں اظہار دیتی ہے جس سے پنجاب میں ماں بولی کے دوبارہ احیات اور تحریک کا احساس ہوتا ہے، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ میں مادری زبان کے نام پر تمام مقامی دانشور حلقے یکجا اور انہیں لہجے اور زبان کے حوالے سے کوئی تحفظات نہیں ہیں، مگرپنجابی کے دانشوروں میں جدید الفاظ کے استعمال کے حوالے سے اعتراض ہے اور کچھ حلقے کلاسک پنجابی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں۔

 گلوبلائزیشن کے اس عہد میں جہاں پر زبان اور ثقافت کو عالمی کلچر کی میڈیا وار کا سامنا ہے وہاں پر مقامی زبانوں کے بقاء کیلئے اس کو عالمی کلچرل تبدیلیوں کے تناظر میں جزب کرنا پڑے گا ل۔ پنجابی زبان اور ثقافت کے ابھار کیلئے فخر زماں کی کوششیں بلا قدر ہیں انہوں نے حال میں لاہور میں پیس کانفرنس منعقد کی ہے ، گجرات محمد افضل راز ، ڈاکٹر اظہر محمود ، ڈاکٹر وسیم گردویزی اور افتخار وڑائچ کالروی گاہے بگاہے تقریبات منعقد کر کے پنجابی کلچر کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ گوجرانوالہ میں ہمارے دوست خلیل اوجلہ اپنی پنجابی تنظیم پرچار کے زیر اہتمام فوک میلہ منعقد کرواتے ہیں جس میں پنجابی کے ممتاز شاعر بابا نجمی اور جی سی یونیوسٹی لاہور کے پروفیسر کلیان سنگھ کلیان اور دیگر دانشور پنجابی زبان کے حوالے سے پر مغز گفتگو کرتے ہیں۔

 اسلام آباد میں لوگ ورثہ بھی مقامی کلچر کو پروموٹ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے پنجابی کے نامور لکھاریوں میں مشتاق صوفی، زاہد حسن، نجم حسین سید، اور زاہد رسول بھی اپنی تحریروں کے ذریعے پنجابی کا جاندار ادب تخلیق کر رہے ہیں یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی کی ماں بولی کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا زیادہ پروگراموں کو جگہ نہیں دے رہا ۔ پنجابی ثقافت اور زبان کے ابھار کیلئے ایک مشترکہ تحریک کی ضرورت ہے یاد رہے کہ ہندوستان میں نئے صوبے لاثانی بنیادوں پر بنائیں گے ہیں لہذا ہمیں مقامی پنجابی کلچر کے فروغ کیلئے سرائیکی صوبہ بنانے کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس سے پنجابی کلچر ل اور پھلے پھولے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mother language day is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.