
ملک نیا، قوانین پرانے
ہم کب تک ”لکیر ے فقیر بنے“ رہیں گے؟۔۔۔۔پاکستان میں اسلامی قوانین کا پرچار تو بہت کیا جاتا ہے لیکن قوانین غیروں کے اپنائے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر اپنے ملک کو اسلامی قوانین کی طرز پر ڈھالا جائے
بدھ 10 ستمبر 2014

برصغیر پر انگریزوں نے کئی برس تک حکومت کی، مسلمانوں کو نیچا دکھانے کیلئے ہندو اُن کو ساتھ دیتے رہے۔ یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد تقسیم کے موقع پر بھی نوزائیدہ مملکت کے ساتھ نا انصافی کی گئی لیکن پاکستان نے اپنے قیام کے بعد سے ہی فوری طور پر برطانوی قوانین کا نفاذ کر دیا۔
برطانوی راج نے 1860 میں جو فوجداری اور عدالتی قوانین نافذ کئے تھے، آج بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ یہاں رائج ہیں۔ پاکستان میں تمام فوجداری عدالتوں کے کام کاج کایہی قاعدہ ہے اپنے پاوٴں پر کھڑے ہونے کیلئے پاکستان نے جن قوانین کا سہارا لیا تھا ، وہی قوانین تھے۔ قیام پاکستان کو 67 برس گزر جانے کے باوجود بھی قانون کی رہی کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں جنہوں نے قانون دان تو پیدا کئے مگر اُنہوں نے انگریزوں کی تقلید اور قانون کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
(جاری ہے)
ہندوستان میں برطانوی حملہ آوروں اور قابضین کے پیش نظر کاروباری مفاد تو تھا ہی لیکن اُن کی ایک پالیسی مقامی لوگوں کو محکوم بنائے رکھنے کی بھی تھی۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ پولیس کو اپنی مرضی اور سہولت سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت تھی ۔ اُس کیلئے نہ وارنٹ تھا اور نہ کسی ثبوت کی ضرورت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی اُصول انفرادی حقوق کو تحفظ دیتے ہیں۔ لہٰذا برطانہ کے گھروں اور کالونیوں میں ایک جیسی ہی صورت حال نظر آتی ہے اور یہ اسلئے بھی تعجب کی خیز معلوم نہیں ہوتا۔ حیران کن اَمر یہ ہے کہ پاکستان میں ایک اجنبی طرز پر زندگیاں گزاری جار ہی ہیں۔
فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات پر جسے فاٹا کہا جاتا ہے لاگو ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت مشتبہ شخص کے خاندان یا پورے قبیلہ کو قید کیا جاسکتا ہے۔ اُنہیں مقدمے کی سماعت ، قانونی چارہ جوئی یا اپیل کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔ 2011 میں 110 سالہ اس پرانے قانون میں تھوڑی سی ترمیم کرتے ہوئے عورتوں، بچوں اور بزرگوں کا اجتماعی سزا سے خارج کر دیا گیا تھا۔
تاریخ کا بغور مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ اور عوام کے درمیان بڑ فرق ہوا کرتا تھا۔ اُس وقت عوام اُس کی رعایا ہوا کرتے تھے۔ حکمران کی اطاعت کرنا عوام کیلئے نہ صرف ضروری تھا بلکہ اُن کے فرائض میں بھی شامل تھے۔
برصغیر میں برطانوی حکومت قائم ہوئی تو اس اُس وقت بھی حکمرانوں اور عیت میں یہ فرق قائم رہا ۔ وقت کے ساتھ بہت سے ممالک میں یہ فرق قائم رہا۔ وقت کے ساتھ بہت سے ممالک میں یہ فرق کم ہوتا چلا گیا ۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں ابھی تک عوام کیلئے رعیت کا تصور موجود ہے۔ موجودہ حالات کے تحت اگر وہ عوام کی فوح و بہبود ی ابھلائی کیلئے کچھ کرتے یا چند پالیسیاں بناتے ہیں تو اُس کے پیش نظر بھی اُن کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ بے بنیاد عدوں سے عوام کے بہلانے کا یہ سلسلہ گزشتہ 67 برسوں سے جاری ہے۔ اس کیلئے یہی ایک مثال کافی ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ 1970 سے آج تک چلا آرہاہے مگر لوگ روز غریب سے غریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔
جمہوری معاشروں میں ہر شہری قانون کی نظر میں براب ہوتا ہے۔ جب قانون کی نظروں میں سب برابر ہو جائیں اور قانون تمام لوگوں پر یکساں طور پر لالو ہو تو معاشرے میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے اور طاقتور کمزوروں کا استحصال نہیں کرسکتے ۔ اس صورتحال میں اگر ہمارے معاشرے کو دیکھا جائے تو یہ اب تک قرن وسطیٰ کے دور کی باد دلاتا ہے کہ جہاں حکمران اور رعیت کا تصور موجود تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس جمہوری دور میں بھی برسراقتدار یا طبقہ اشرافیہ کے لوگ خود کو حکمران تصور کرتے ہیں، شہری نہیں۔
جب قانون ساز ہی قانون توڑنے میں لگ جائیں اور بیگناہ پھنس جائیں تو یہ جمہوریت کے عین مطابق نہیں منافی ہے ۔ اسلام میں عوام کے حقوق وتحفظ کی ذمہ داری حکمرانوں پر ہے۔خلفائے راشدین بھیس بدل کر اپنے شہریوں کی حالت کاجائزہ لیا کرتے تھے اوراُن کی داد رسی کرتے تھے۔
پاکستان میں اسلامی قوانین کا پرچار تو بہت کیا جاتا ہے لیکن قوانین غیروں کے اپنائے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر اپنے ملک کو اسلامی قوانین کی طرز پر ڈھالا جائے تو عوام کی فلاح و بہود کی یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی مگر ہم ہیں کہ آج تک برطانوی اور قرن وسطیٰ کے قوانین سے جان نہیں چھڑا پائے اور ”لکیر کے فقیر“ بنے اُن پر عمل پیرا ہیں۔
ضرورت اس ام کی ہے کہ حکمران اسلامی قوانین کا احیاء کرتے ہوئے اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں اور غیروں کی تقلید کرنا چھوڑ دیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Mulk Naya Qawaneen Purane is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 September 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.