
نئے شدت پسندوں کے انسداد کی حکمت عملی کیا ہو گی؟
عرب جنگجوؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت اب غیر فعال ہو چکی ہے لیکن وسط ایشائی دہشت گرد پوری شدت سے پاکستانی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔
جمعہ 27 جون 2014

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن زور و شور سے جاری ہے۔ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ روزانہ دھشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاعات فراہم کر رہا ہے۔ قومی سطح پر بھی اس آپریشن کی حمائت میں سیاسی جماعتوں کے اعلانات اور دینی جماعتوں کے فتوے سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ فوجی کارروائی کے علاقہ میں بھاری توپخانہ اور ٹینک بھی پہنچا دئے گئے ہیں۔ سفارتی سطح پر بھی آپریشن کے حوالہ سے زبردست سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ قوم پرست پشتون راہنماء محمود خان اچکزئی اور خارجہ سیکرٹری اعزاز چوہدری نے حامد کرزئی کے ساتھ ملاقاتوں کیلئے کابل کا دو روزہ دورہ کیا۔ پاکستان میں متعین افغان سفیر نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ملاقات کی۔ ملک بھر میں سیکورٹی کے نئے انتطامات کئے گئے ہیں تاکہ دہشت گردوں کے ردعمل کا فوری جواب دیا جا سکے۔
(جاری ہے)
شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والوں کے مسائل اب انسانی المیہ کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مسلہ کی شدت کا ادراک نہیں کر رہیں۔ بے گھر ہونے والوں کو نقل مکانی کیلئے ٹرانسپورٹ میسر نہیں تھی۔ سرکاری کیمپوں میں انسانوں کے بجائے حشرات الارض کے رہن سہن کیلئے حالات زیادہ سازگار ہیں۔ ان کیمپوں میں اس اعتبار سے بھی نہیں رہا جا سکتا کہ وہاں نہ پردہ کرنا ممکن اور نہ مخلوط قیام سے اجتناب کیا جا سکتا ہے۔ دیندار اور غیور پشتون قبائل ایسے ماحول میں کیسے رہ سکتے ہیں؟ بے گھروں کی اکثریت بنوں کا رخ کر رہی ہے جہاں شدید گرمی ہے۔ پینے اور دیگر استعمال کیلئے پانی دستیاب نہیں۔ عورتوں اور بچوں میں تیزی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ فوجی کارروائی کے آپریشنل پہلوؤں کے بارے میں شائد خوب منصوبہ بندی کی گئی لیکن اس آپریشن کے انسانی پہلو پر کوئی غور نہیں کیا گیا اور متاثرین اب اللہ کے آسرے پر پڑے ہوئے ہیں۔
متاثریں کے انخلاء سے اب شمالی وزیرستان میں مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے قیام کے بارے میں بھی ہوش ربا داستانیں سامنے آ رہی ہیں۔ عرب جنگجوؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت اب غیر فعال ہو چکی ہے لیکن وسط ایشائی دہشت گرد پوری شدت سے پاکستانی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ یہ دہشت گرد پہاڑوں اور غاروں کے بجائے گلیوں اور محلوں میں تعمیر شدہ مکانات میں پرتعیش انداز زندگی کے مزے لیتے رہے ہیں لیکن برسوں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ دہشت گرد مقامی افراد کے کرایہ دار تھے۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ ان کے گھروں میں الیکٹرانکس کا قیمتی سامامان اور فرنیچر موجود تھا۔ برس ہا برس سے وہ پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مقیم رہے لیکن ان دہشت گردوں اور ان کے مقامی میزبانوں کے خلاف کبھی کسی کارروائی کی اطلاع منظر عام پر نہیں آئی اس کے برعکس تاثر یہ ملتا تھا کہ وسط ایشیائی دہشت گرد انتہائی کوش ہیں، چھلاووں کی مانند رہتے ہیں اور ان کا سراغ لگانا اور پیچھا کرنا شائد ممکن نہیں لیکن اب مقامی افراد انکشاف کر رہے ہیں کہ ان غیر ملکی دہشت گردوں کی اپنی بستیاں ،محلے اور گروہ تھے جن کا سراغ لگانا اور ان کا انسداد کرنا ناممکن نہیں تھا۔
بتایا یہ گیا تھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن حکومت کی ہدائت پر شروع کیا گیا لیکن کہیں بھی وفاقی حکومت کا کردار دکھائی نہیں دے رہا۔ آپریشن میں پیشرفت کی اطلاعات تو بہر حال فوج کا شعبہ تعلقات عامہ ہی دے رہا ہے لیکن متاثرین کیلئے امداد کی وصولی، امدادی مراکز کا قیام ، دوست ملکوں کے سفارتخانوں سے روابط،متاثرین کیلئے امداد کی اپیل کہیں بھی وفاقی حکومت کی سرگرمی نظر نہیں آتی اور ہر جگہ آئی ایس پی آر فعال دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کو اس آپریشن کی اونر شپ لینے کیلئے آگے بڑھنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے سیفران کے وزیر لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کو متاثرین کے امدادی کاموں کا نگران مقرر کیا ہے۔ ان کی صدارت میں کچھ اجلاسوں کی خبریں میڈیا میں آئیں لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ اطلاع تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف شمالی وزیرستان کا دورہ کریں گے، شمالی وزیرستان نہ سہی، وزیر اعظم کم از کم بنوں ضرور جائیں جہاں وہ بے گھروں کی حالت زار بچشم خود دیکھ سکیں گے۔
بعض وفاقی وزراء خصوصاً وزیر دفاع خواجہ آصف کے آپریشن ضرب عضب کے حوالہ سے بیانات دیتے ہوئے محتاط رہنا ہو گا ورنہ اس آپریشن کو متنازعہ بنانے اور ایک غیر ضروری بحث چھیڑنے کے ذمہ دار قرار پائیں گے۔ وفاقی وزیر نے حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ روس کے خلاف افغانستان میں جدوجہد جہاد نہیں تھا بلکہ سی آئی کی فنڈنگ سے لڑی جانے والی لڑائی تھی۔ ان کے بیان پر ردعمل میں آپریشن ضرب عضب کی فنڈنگ کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزراء کو اہم قومی ایشوز پر انتشار پیدا کرنے کئے بجائے قومی مفاہمت اور اتفاق رائے کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Naaye Shidat Pasandoon K Insedad Ki Hikmat Aamli Kiya Ho Gi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 June 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.