
نواب میاں خان کا مقبرہ
شاہ عالمی کے ساتھ رنگ محل لاہور میں ایک خوبصورت حویلی واقع ہے جس کا نام حویلی میاں خان ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ حویلی دیکھ رکھی ہو گی جو والڈ سٹی کے اندر واقع ہے۔ یہ مقبرہ انہی نواب صاحب کا ہے ۔
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری
جمعہ 18 دسمبر 2020

آج میں یہاں ایک ایسی ہی جگہ کا ذکر کروں گا جو برسوں بعد میرے سامنے آئی ہے۔ لاہور کی اس تاریخی جگہ کا نام ''مقبرہ نواب میاں خان'' ہے جو سنگھ پورہ لاہور کے علاقے بھوگیوال میں جی ٹی روڈ پر کسی لُٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کناں نظر آتا ہے۔
(جاری ہے)
چلیں اس کی تاریخ کے بخیئے اُدھیڑتے ہیں۔۔۔۔
شاہ عالمی کے ساتھ رنگ محل لاہور میں ایک خوبصورت حویلی واقع ہے جس کا نام حویلی میاں خان ہے۔
نواب میاں خان ، نواب سعد اُللہ خان کے فرزند تھے جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں۔ نواب سعد اللہ خان جنہیں میاں سعد اللہ بھی کہا جاتا تھا، چنیوٹ کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مذہب سے لگاؤ اور تعلیم کی جستجو انہیں لاہور کھینچ لائی جہاں انہوں نے مسجد وزیر خان کے ساتھ واقع مدرسے میں داخلہ لیا اور وہیں ایک کمرے میں رہنے لگے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنی ذہانت اور حاظر جوابی کی بدولت شاہجہاں کے دربار تک راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ شاہجہاں، جو پہلے ہی قابل اور ذہین دماغوں کی تلاش میں رہتا تھا، نے انہیں ایوانِ عدل میں نوکری عنایت کردی ۔
یہاں میاں سعد اُللہ خان کی ایمانداری اور مخلص طبیعت نے شہنشاہ کو اتنا متاثر کیا کہ شہنشاہ کی طرف سے انہیں '' علامہ فہامی جُملتہُ المُلک'' کا خطاب دیا گیا اور اسی کے ساتھ شاہجہاں نے خان صاحب کو لاہور میں اپنا وزیرِ اعظم بنا کہ بھیج دیا۔ اپنے دور میں سعد اللہ خان نے لاہور اور چنیوٹ میں بہت سی تعمیرات کروائیں جو ان کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ان میں چنیوٹ کی شاہی مسجد ، رنگ محل کی حویلی میاں خان اور لاہور کی پتھراں والی حویلی شامل ہیں۔

آپ کے رُتبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہاں ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا جس پر ہزاروں روپے پانی کی طرح بہائے گئے۔ چونکہ آپ کا تعلق چنیوٹ سے تھا، جو خوبصورت بناوٹی کام اور کالے پتھر کے لیئے مشہور ہے، اس لیئے آپ کے مقبرے کےلیئے شہرِ چناب سے کالا پتھر منگوایا گیا۔ عمارت کی بات کریں تو اس کے بنیادی چوکور چبوترے میں بھاری بھرکم کالا پتھر استعمال ہوا ہے جس سے اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس چبوترے کے اوپر درمیان میں ایک اور چھوٹا چبوترا ہے جس پر ایک خوبصورت بارہ دری تعمیر کی گئی ہے جس کے چہار جانب تین تین محرابیں ہیں۔ بارہ دری کے وسط میں تقریباً 6 انچ کا ایک اور چبوترہ ہے جس پر ایک زمانے میں سنگِ مرمر سے بنی میاں خان صاحب کی قبر موجود تھی جسے رام نگر کے راجہ، راجہ سُچیت سنگھ نے ملیامیٹ کر دیا۔ آج صرف بارہ دری کےاندر کا چبوترہ ہی باقی بچا ہے۔
چھت کے کناروں پر نفاست سے گُل بوٹے بنائے گئے تھے جو ان دنوں ایک مہنگا کام تصور کیا جاتا تھا۔ چھت کے اوپر بھی چاروں طرف چھوٹے چھوٹے چبوترے بنائے گئے ہیں۔ اس دور کے مقبروں کی طرح اس مقبرے کے گرد بھی ایک خوبصورت باغ تھا جس میں فوارے لگائے گئے تھے۔ باغ کا نقشہ دوسری مغلیہ عمارتوں کے طرز پر بنایا گیا تھا۔
سِکھ دور میں یہاں کا سنگِ مرمر اور دیگر قیمتی پتھر اکھاڑ لیئے گئے ۔ خشت فروشانِ شہر نے بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا اور اسکی اینٹیں نکلا کر بیچ دی گئیں یہاں تک کہ کنہیا لال (مؤرخ) کے بقول یہ خشت فروش لکھ پتی بن گئے جن میں زیادہ تعداد کشمیر سے آئے لوگوں کی تھی ۔ پھر کچھ عرصے کے لیئے یہ شیخ امام الدین کے قبضے میں آیا جنہوں نے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی۔ جناب نے مرکزی چبوترے کے کالے پتھر پر دن دیہاڑے ڈاکہ مارا اور اسے اپنی حویلی میں استعمال کیا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ تاریخی عمارتوں کی آبرو ریزی میں مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
سِکھ دور میں یہ عمارت ایک کھنڈر بن چکی تھی جس کا کوئی ولی وارث نہ تھا۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر راجہ سُچیت سنگھ نے اس پر قبضہ جما لیا تھا۔ اس نے اسکی دیواروں کو تعمیر کروا کہ یہاں ایک باغ لگوایا جو اسکے مرنے تک '' باغ راجہ سُچیت سنگھ'' کہلاتا تھا۔ اس دور میں اس جگہ کی اہمیت اور بڑھ گئی۔

تب سے اب تک اس مقبرے نے بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں جن میں راجہ سچیت سنگھ کی گئی کچھ نئی تعمیرات اور نواب علی رضا کی مُرمت شامل ہیں۔
یہ جگہ کوئی بہت بڑا سیاحتی مرکز نہیں ہے نہ ہی حکومت نے اس پر کوئی توجہ کی ہے لیکن تاریخ کے متوالوں اور جہاں گردوں کے لیئے اس جگہ میں بہت کشش ہے۔ آج بھی جب آپ یہاں جائیں تو خاموشی اور ویرانی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ اگرچہ قریبی گراؤنڈ میں بچے بالے ذوق وشوق سے کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ کسی کو بھی خود کی طرف متوجہ نہ پا کر تنہائی کی ماری یہ عمارت روتی ضرور ہو گی اور اس کے آنسو۔۔۔۔۔۔
وہ تو ہم جیسوں کے دل پر ہی گرتے ہیں۔
(تحریر میں بیان کردہ تاریخی حقائق مختلف ذرائع سے حاصل شدہ ہیں ان سے مصنف کا متفق ہونا ضروری نہیں)۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Nawab Mian Khan Ka Maqbara is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.