نواز شریف کو اچانک” میثاق جمہوریت “کیوں یاد آیا؟

زرداری اور نواز کے درمیان حالیہ رابطوں کا انکشاف۔۔۔ چوہدری نثار کو سابق صدر کی خواہش پر کابینہ میں نہیں لیا گیا

جمعہ 11 اگست 2017

Nawaz Sharif Ko Achanak Misaq e Jamhooriat Kiun Yad Aya
محمد انیس الرحمن:
ایوب خان کے دور میں تاشقند سے واپسی کے بعد بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ ”تاشقند میں کیا ہوا قوم کو بتائیں گے“ دہائیاں گزر چکی ہیں قوم کو آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ”تاشقند میں کیا ہوا“بعد میں یہی ثابت ہوا کہ جو ہوا تھا وہ سامنے آچکا تھا، باقی یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جو بھٹو نے ایوب خان کو قوم میں بدنام کرنے کے لئے لگایا تا کہ انہیں اقتدار سے باہر کیا جائے اس کے بعد جو کچھ ہو ا وہ تاریخ ہے۔

۔ اب یہی رویہ میاں نواز شریف اختیار کئے ہوئے ہیں ان کہنا ہے کہ ”ان کے خلاف سازش ہوئی“اور وہ اس سازش سے پردہ اٹھاکر رہیں گے۔ ان کے پاس بہت سے راز ہیں جنہیں وہ وقت آنے پر افشا کریں گے وغیرہ ۔ وغیرہ وہ وقت کب آئے گا تاحال کسی کو نہیں معلوم۔

(جاری ہے)

۔ لیکن قوم ذہنی طور پر تیار رہے کہ بھٹو کے بیان”تاشقند میں کیا ہوا قوم کو بتاؤں گا“کی طرح”میرے سینے میں راز ہیں وقت آنے پر افشا کروں گا“ نواز شریف بھی قوم کو انتظار کی سولی پر لٹکا سکتے ہیں۔

کیونکہ جو کچھ تاشقند میں قوم کے سامنے آیا تھا میں ثابت ہو اکہ بس یہی کچھ ہوا تھا باقی سب کچھ سیاسی کھیل تھا۔ اس طرح میاں صاحب کے راز بھی آگے جا کر ایسے ثابت ہوں گے کہ قوم ان سے پہلے سے ہی آگاہ تھی۔ واللہ اعلم میاں صاحب جس وقت مری سے اتر کر اسلام آباد آئے تھے تووہ جنگی موڈ میں تھے ذرائع کا کہنا ہے کہ ساری پلاننگ مریم نواز کی خواہش کے تحت ہورہی ہے۔

اب جبکہ سابق وزیراعظم اپنی نا اہلی کے بعدمری سے نیچے اتر کر پہلے اسلام آباد آئے اور یہاں سے لاہور جانے کے پروگرام کا اعلان کیا اور ان سطور کے شائع ہونے تک میاں صاحب ”پاور شو“ کے لئے عازم لاہور ہو چکے ہوں گے مگر لاہور جانے سے پہلے انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کر لیا ہے ان روابط کے حوالے سے اسلام آباد کے ذرائع کا کہناہے کہ یہ سب کچھ بھی مریم نواز کے کہنے پر ہوا جس میں جمہوریت بچانے کے نام پر ان سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔

اطلاعات یہ ہیں کہ زرداری صاحب نے ”مشروط طور پر“میاں صاحب کی درخواست مان لی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں میاں صاحب کو ایک مرتبہ پھر ”میثاق جمہوریت “ یاد آگیا تھا جو حالیہ نواز زرداری رابطے کی ایک ابتدائی تمہید ہے لاہور پہنچتے ہی یہ معاملہ مزید کھل جائے گا۔۔۔ پلان کے مطابق قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ارکان کی دوتہائی اکثریت کی مدد سے آئین 62-63 شقیں ختم کردی جائیں اور دیگر ایسی شقوں کو بھی ختم کیا جائے جس کے تحت دونوں جماعتوں پر حکمران افراد قانون کی زد میں نہ آسکیں۔

یہ معاملات کہاں تک پورے ہوں گے اس کی طرف تو بعد میں دیکھیں گے کیونکہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے قانون بننے کے بعد یہ معاملات سپریم کورٹ میں جاتے ہیں جنہیں اعلی عدالت رد بھی کرسکتی ہے۔۔۔ اول تو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی نہیں رکے گا۔۔۔ زرداری کی ”مشروط حمایت“کے بعد ہی نواز شریف کی جانب سے سب سے پہلے چوہدری نثار کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے حلقے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”وہ پھر کسی وقت بتائیں گے کہ وہ کابینہ میں کیوں شامل نہیں ہوئے“ وہ تو شاید بعد میں بتائیں گے ہم پہلے بتا دیتے ہیں کہ زرداری کی خواہش کے احترام میں چوہدری صاحب کو کابینہ میں نہیں لیا گیا۔

۔ لیکن اس صورتحال میں پنجاب میں سیاسی کھیل مزید دلچسپ ہوجائے گا کیونکہ اس کھیل میں آصف زرداری نے صرف قومی اسمبلی تک نہیں رکنا بلکہ وہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن دوبارہ بحال کرنے کیلئے بھی مزید مطالبہ کریں گے۔ لیکن کیا یہ سب کچھ شہباز شریف اینڈ سنز کو منظور ہوگا؟ جن کے پاس کھونے کے لئے صرف پنجاب ہی بچا ہے۔۔!!اس صورتحال میں ذرائع کے مطابق نواز لیگ اس وقت دو بڑے دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس میں ایک طرف نواز گروپ ہے اور دوسرا شہباز گروپ۔

میں صاحب نے خاقان عباسی کے نام کے بعد شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان تو کیا لیکن مریم نواز صاحبہ کی وجہ سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ ذرائع اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ میاں شہباز شریف کی خواہش تھی کہ حمزہ شہباز کو صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا کر انہیں صوبے کا وزیراعلیٰ بنادیا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ اگلے وزیر اعظم بننے کے لئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو خیر باد کہہ دیں گے لیکن پھر محترمہ مریم نواز صاحبہ آڑے آئیں اور میاں صاحب نے اس بات کا ماننے سے صاف انکار کردیا جس کے بعد شریف خاندان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دونوں بھائیوں کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اس کے درمیان بھی پھوٹ پڑنے کی رپورٹیں ہیں مثلاََ وزیر داخلہ احسن اقبال کسی طور بھی طلال چوہدری کو اپنے ساتھ لینے کے لئے تیار نہیں دوسری جانب دانیال عزیز اپنی وزارت سے خوش نہیں۔

سب سے تشویش ناک امر ہے کہ سیاسی سطح پر ”جنگی کابینہ“ تو بنادی گئی لیکن تاحال پاکستان کے ”قومی سلامتی کے مشیر“ کی تعیناتی نہیں کی گئی ہے۔۔۔ جو خطے کے حالات سے واقف ہیں وہ جانتے کہ یہ انتہائی خطرناک غلطی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں میاں صاحب کے”نابغہ مشیروں“ نے انہیں تصادم کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہجوم کے ساتھ جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچیں گے لیکن کس کے خلاف؟ شہبازشریف کی حکومت تو انہوں نے ختم نہیں کرنی پھر یہ سب کچھ کس کے خلاف ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ؟ اس کا مطلب ہوا کہ میاں صاحب جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار کی جنگ کے لئے آئین اور قانون توڑیں گے جس کا طعنہ وہ فوجی آمروں کودیتے ہیں کہ یہ آمر آئین اور قانون توڑتے ہیں تو اب خود میاں صاحب کیا کرنے جارہے ہیں۔

اسلام آباد میں میاں صاحب کی آمد پر کیا کچھ ہوا کیا اس وقت شہر میں دفعہ 144 نہیں لگی ہوئی تھی؟ تو پھر قانون کون توڑ رہا ہے؟ پلان کے مطابق میاں نواز شریف اپنے قافلے کے ساتھ راولپنڈی اور اس کے بعد روات کی جانب سے بذریعہ جی ٹی روڈ عازم لاہور ہوں ذرائع یہ خبر بھی دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کی خود بھی یہ خواہش ہے اور ان کے ”نابغہ مشیر“ بھی یہ چاہتے ہیں کہ یہ سفر تین دن پر محیط ہوتا کہ عوام کی بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا جائے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی پر مجبور ہوجائے لیکن ایسا بھی نہیں ہونے جارہا۔

لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ سفر خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ پنجاب کے ذرائع کا خیال ہے کہ جھگڑے کی ابتدا روات سے بھی شروع ہوسکتی ہے۔۔۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سارے معاملے کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ وزیراعظم خاقان عباسی کا کہیں کچھ پتا نہیں نہ ہی وزیر ان کی کوئی بات سننے کو تیار ہیں کیونکہ ”جنگی کابینہ“ کا تعین مری میں کیا گیا تھا نہ کہ اسلام آباد میں داخلی طور پر ملکی سکیورٹی کے ذمہ دار وزیر داخلہ احسن اقبال راستے میں امن وامان کی صورتحال پیدا ہوجانے کی صورت میں کہاں کھڑے ہوں گے؟ کچھ پتا نہیں۔

لیکن یہ بات عیاں ہے کہ جن جن افراد نے حکومت، صحافت اور سیاسی جماعتوں میں سے میاں صاحب کو اس آگ میں کودنے کا مشورہ دیا ہے وہ سب ریاستی اداروں کی نظر میں ہیں۔جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے تمام جماعتیں اس وقت عمران خان کو نیچا دکھانے کے لئے ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہیں اس لئے حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کی سابق رکن اسمبلی عائشہ گلا لئی کو استعمال کیا گیا یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ریاستی اداروں تک یہ حقیقت پہنچ چکی ہے کہ اس خاتون کوکس طرح اورکس قیمت پر عمران کے مقابل لایا گیاتھا ہم یہاں عمران خان کی حمایت نہیں کررہے ، پی ٹی آئی کی بہت سی پالیسیاں ہمارے نزدیک انتہائی نقصان دہ ہیں اور جہاں تک عمران خان کے ماضی کا تعلق ہے وہ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے جس رنگین دور سے گزرا ہے اس سے بھی انکار نہیں لیکن جب معاملات سیاسی کھیل تک آئیں گے تو اس وار کا جواب پی ٹی آئی نے حمزہ شہباز کی مبینہ اہلیہ عائشہ احدکو سامنے لاکھڑا کردیا لیکن اس کا فائدہ نون لیگ کے نواز گروپ کو ہوا جبکہ نون لیگ کے شہباز گروپ کا اس سے دھچکہ لگا لیکن سوقیانہ الزامات کا یہ گندہ کھیل جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچا۔

بہر حال اور بیان کردہ تمام نکات میں سب سے دلچسپ نکتہ زرداری کی اس کھیل میں دوبارہ آمد ہے۔ جس وقت آصف زرداری نے اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرکے” اینٹوں سے اینٹیں بجانے“ کی بات کرکے پیچھے دیکھا تو نواز شریف غائب تھے جس کے بعد انہیں فوراََ کراچی سے دبئی بھاگنا پڑا تھا بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ دبئی بھی زیادہ محفوظ نہیں ہے تو انہوں نے اپنا تانگہ لندن کی جانب بڑھا دیا۔

اس کے بعد وہ وہاں سے پیار بھرے پیغامات اسٹیبلشمنٹ کے بھیجتے رہے کہ انہیں زرداری کے ساتھ پاکستان میں داخلے کی اجازت مل جائے لیکن دوسرے جانب سے سرد خاموشی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے رسک پر پاکستان آئے لیکن”کسی“نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا اس خاموشی کو انہوں نے کسی طوفان کا پیش خیمہ سمجھا اور دوبارہ ملک سے باہر چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق ا ب ان کی ”خاموش زندگی“ میں نواز شریف کی رابطہ کال نے پھر ارتعاش پیدا کردیا تو انہوں نے کافی شکوے شکائت کئے۔

حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز پر دہائیوں سے مسلط غیر منصفانہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے اور پاکستانی قوم بھی اس سے تنگ آچکی تھی اب اس نظام سے مفاد حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان پر مسلط خاندانوں کی زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اچکزئی ہو یا فضل الرحمن یا اسفند یارولی اور دیگر سب کے پاس اس نواز شریف کی شکل میں آخری ترپ کا پتا بچا ہے جسے وہ سیاسی بساط پر کھیل کر قوم کو بے وقوف بناتے ہوئے اپنے مفاد میں اس نظام کا دوام چاہتے ہیں جو کہ ہونے نہیں جارہا اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت میاں صاحب لاہور پہنچ چکے ہوں گے تو دوسری جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کا جہاز بھی لاہور اتر جائے گااسی دوران سندھ میں معاشی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن وہیں سے شروع ہوجائے گا جہاں اسے وقتی طور پر روکا گیا تھا اور اس سلسلے میں بڑی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی اسی دوران ڈاکٹر طاہر القادری ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے قتل عام کا کیس سپریم کورٹ میں لے جانے کا اعلان کر سکتے ہیں اور جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ بھی کھولی جاسکتی ہے۔

ادھر سندھ میں اور ادھر پنجاب میں جس وقت یہ پنڈورابکس کھلے گا تو آصف زرداری کے لئے پنجاب تو دور کی بات سندھ میں بھی کچھ نہیں بچے گا یہی صورتحال نون لیگ کی وفاق اور پنجاب میں لیڈر شپ کے لئے ہوگی۔ ممکن ہے کہ اگست کے آخیر میں۔۔۔ حالات معمول پر آجائیں۔ آخر میں ہماری دعا ہے کہ میاں نواز شریف کا لاہور کی جانب سفر خیریت سے اپنے انجام کو پہنچے کیونکہ اپنے پیچھے جو عبوری سیٹ اپ بنا کر گئے ہیں وہ ایک بے سمت سیٹ اپ ہے اس میں کچھ لوگوں کی ذاتی خواہشات تو ہوسکتی ہے لیکن ملک اور قوم کے لئے اس میں کوئی نفع نہیں۔

اس مرحلے پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کیا نواز شریف اور ان کے ”نابغہ مشیروں“ کو اندازہ ہے کہ عالمی قوتوں کی جانب سے ان کی نااہلی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قراردیا گیا ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ اس کی ترجیح پاکستان ہے نہ کہ نواز شریف، امریکیوں کو وائٹ ہاؤس سے لیک ہونے والی خبروں کا معمہ سلجھانے سے فرصت نہیں، جدہ اور دوحہ کے دروازے ویسے ہی بند ہوچکے ہیں۔۔۔ جس قسم کے عالمی اور خطے کے حالات بن چکے ہیں ان میں 2018ء کے عام انتخابات۔۔۔ ہنوزدہلی دوراست۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nawaz Sharif Ko Achanak Misaq e Jamhooriat Kiun Yad Aya is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.