
نصابِ تعلیم کامعیار
پاکستان میں صحت کے علاوہ دوسرا غیر اہم ترین محکمہ تعلیم کا ہے جس کی وجہ سے ہمیں ی بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے یا کرپشن۔
ہفتہ 12 دسمبر 2015

(جاری ہے)
اس رویے کی حامل قوم کی ہی ہمارے ”آقاوٴں“ کو ضرورت ہے کہ جب کہیں کھڑے ہو جاو تو وہ کھڑے ہو جائیں۔ جب کہیں بیٹھ جاوٴ تو وہ بیٹھ جائیں اور جب کہیں لیٹ جاوٴ تو وہ لیٹ جائیں۔
ہمارے ہاں جب بھی کبھی تعلیم کی بہتری کی بات شروع ہوتی ہے تو کئی تنظیموں کو یہ باد آجاتا ہے کہ تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ کئی تنظیمں اس کی مخالف میں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں کہ نہیں نظام تعلیم اُردو ہونا چاہیے، کوئی تنظیم انگریزی کی افادیت لے کر سامنے آجاتی ہے۔ اس لڑائی میں اصل بات گم ہو جاتی ہے اور تعلیم وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے اور ”آقا“ جیت جاتے ہیں۔یہ سب باتیں اسلئے یاد آگئیں کہ کچھ عرصے پہلے ٹیکسٹ بورڈ کی شائع شدہ کتابوں میں ایسی غلطیاں سامنے آئیں کہ کتابت کرنے والا بھی پریشان ہو رہا ہوگا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں مگر وہ کتابیں صرف شائع ہوئیں بلکہ بچوں کے بستوں میں بند ہو کر سکول بھی پہنچیں اور ان کی تعلیم بھی دی گئی۔ کسی باشعور والدین نے جب یہ دیکھا کہ ان کے بچے کیا پڑھ رہے ہیں تو معلوم ہو ا کہ بچے جو پڑھ رہے ہیں اُنہیں ہر گز نہیں پڑھنا چاہیے۔ چنانچہ ان میں سے کسی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دی تو ہائیکورٹ کے جج صاحب نے ٹیکسٹ بورڈ کے چیئرمین سے کہا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ عدالتی احکامات کو نظر انداز کیا گیاہے تو سخت کرروائی ہوگئی۔ ہائیکورٹ میں جمع کرائی جانیوالی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ”آٹھویں جماعت کے نصاب میں شامل جغرافیہ کی کتاب میں پاکستان کے چار کی بجائے چھ صوبے بتائے گئے ہیں“۔ یہ غلطی کی گئی یا ہو گئی یا اس سے کس نے کیا فائدہ اُٹھایا اور اس کے ذمہ دار کو کیا سزا ملے گی ایک الگ بحث ہے مگر اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب نے اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں سکولوں میں معیاری تعلیم کے فروغ اور اساتذہ کو جدیدتربیت دینے کے لیے فوری طور پر جامع اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ نیاس موقع پر اعلان کیا کہ خستہ حال عمارتوں میں تعلیمی سرگرمیاں فوری طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ خستہ حال تعلیمی اداروں کی تعمیر نو کیلئے ساڑھے آٹھ ارب روپے کی رقم مختص کردی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی علم دوستی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے خستہ حال سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اب خستہ حال تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی بھی تعمیر نو کر رہے ہیں ۔ کاش کہ تعلیمی پالیسی اور نصاب بنانے میں بھی سیمنٹ اور سریے کا استعمال ممکن ہوتا تو وہ اس پر بھی ضرور توجہ دیتے ۔ اب چونکہ یہ ممکن نہیں ہے تو عوام کو جیسانصاب مل رہا ہے صبر شکر کر کے پڑھ لینا چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Nisab e Taleem Ka Mayaar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 December 2015 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.