پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے ”سندھ کارڈ“ پھسلنے لگا؟

ٹکٹوں کی تقسیم پر جیالے ناراض، راہیں جدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاڑکانہ کے انتہائی محفوظ تصور کئے جانے والے حلقوں میں سخت مقابلے کا اعلان

منگل 10 جولائی 2018

peoples party ke hathon se sindh card phisalnay laga
راؤ محمد شاہد اقبال
تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے بعد اب سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے شدید تنازعات سامنے آ گئے ہیں اور سندھ میں کم و بیش تین درجن سے زائد انتخابی نشتوں پر پیپلز پارٹی کے اپنے ہی مختلف امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے باعث سندھ میں پیپلز پارٹی کی محفوظ ترین تصور کی جانے والی انتخابی نشستیں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں بظاہر پیپلز پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سے قبل سندھ میں اپنے آپ کو کسی بھی سیاسی جماعت سے محفوظ تصور کر رہی تھی لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔

اگر پیپلز پارٹی نے اپنے ناراض رہنماوٴں کے خدشات کو دور نہیں کیا تو اسے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 50 سے زائد یقینی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

سندھ میں انتخابی ٹکٹ نہ ملنے پر اہم ناراض رہنما پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرنے گئے ہیں ضلع بدین
سے سابق اراکین قومی اسمبلی غلام علی نظامانی ، کمال احمد چانگ ،ضلع دادو سے سابق ایم این اے طلعت حسین مہیسر، ضلع گھوٹکی سے سابق ایم این اے سردار علی گوہر مہر ، نوشہرو فیروز سے سابق صوبائی وزیر عبدالحق بھرٹ ، سابق ایم پی اے ڈاکٹر ستار راجپر، تھر پارکر سے سابق ایم این اے فقیر شیر محمد بلالا نی، جامشورو سے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر شورو ، میر پور خاص سے سابق صوبائی وزیر سید علی نواز شاہ، نواب شاہ سے چوہدری عمران علی آرائیں اور دیگر نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے بعد پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں کے خلاف ایکشن میں بھر پور مقابلہ کرنے کا اعلان جنگ کردیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے کئی سینئر رہنماوٴں نے ٹکٹ نہ ملنے پرالیکشن مہم میں خاموشی کے ساتھ پارٹی مخالف امیدواروں کی حمایت کرنے کا عند یہ بھی دے دیا ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی کے لئے صوبہ سندھ کے کئی انتخابی حلقوں میں کامیابی حاصل کرنا ایک بڑا بن گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے213 نواب شاہ سے الیکشن لڑنے والے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو بھی سخت ترین مقابلہ کا سامنا ہے، سابقہ انتخابات میں اس حلقے سے ان کی بہن عذرا پیچوہو85 ہزار ووٹوں کی واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تھیں ان کے مقابلے میں سردار شیرمحمد رند نے 32 ہزار ووٹ اورفنکشنل لیگ کے امیدوار نے 25 ہزار ووٹ لئے تھے مجموعی طور پر عذرا پیچوہوکے مقابل تمام امیدواروں نے ایک لاکھ 25 ہزار ووٹ لئے تھے اس بار سردار شیر محمد رندجی ڈے اے کی طرف سے مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہیں پی پی مخالف ہر سیاسی جماعت کی حمایت بھی حاصل ہے ، اگر وہ تمام پیپلز پارٹی مخالف ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آصف علی زرداری کی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے ، دوسری طرف نوشہرو فیروز سے بھی پیپلز پارٹی کے 2 اہم ترین رہنماوٴں عبدالحق بھرٹ اور ڈاکٹر ستار راجپر نے پیپلز پارٹی کے نامزد کرد ہ امیدواروں کا مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

پی ایس 35 سے پیپلز پارٹی نے عبدالق بھرٹ کے بجائے ممتاز چانڈیو کو نامزد کیا ہے، جو سندھ حکومت کے اربوں روپے لاگت کے منصوبوں کے ٹھیکیدار بھی ہیں ، آصف علی زرداری عبدالحق بھڑت کو منانے کیلئے ان کے گھر چل کر گئے تھے ،لیکن وہ تاحال الیکشن سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ پی پی ذرائع دعوی کر رہے ہیں کہ پارٹی قیادت اور عبدالحق بھڑت سے بات چیت جاری ہے جس کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔


 ضلع بدین بھی سندھ کا ایک اہم ترین حلقہ ہے جو کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں سے بھی پی پی کے لیئے کچھ اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ضلع بدین کے علاقے ماتلی سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے غلام علی نظامانی پارٹی سے اپنی راہیں الگ کر تے ہوئے جی ڈی اے کا حصہ بن گئے ہیں جبکہ اسی علاقے کے سابق ایم این اے کا م چانگ بھی انتخابی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے سخت ناراض ہیں اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں ، اس حلقے سے ایم این اے کی سیٹ کیلئے جی ڈی اے نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو نامزد کیا ہے ، جن کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے میر غلام علی تالپور کریں گے اس حلقے میں فنکشنل لیگ کے اثر ورسوخ اور سیاسی اثرات کے سبب پیپلز پارٹی کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ضلع تھرپارکر کے پی ایس56 سے سابق ایم این اے فقیر شیر محمد بلالانی نے پی پی کے امید وار ڈاکٹر مہیش ملانی سے مقابلے کا اعلان کردیا ہے جس سے پارٹی قیادت سخت پریشان ہے، اس حلقے میں بھی مہیش ملانی کی پوزیشن بے حد کمزور بتائی جارہی ہے کیونکہ نئی حلقہ بندی کے نتیجے میں تقریبا10 ہزار سے زائد مہیش ملانی کے حمایتی ووٹرز دوسرے حلقے پی ایس57 کا حصہ بن گئے ہیں ، جبکہ تھر پارکر میں غوثیہ جماعت کا بھی کافی ووٹ بینک ہے اور شاہ محمود قریشی نے بھی فقیر شیر محمد بلالانی کو اپنی بھر پور حمایت کا یقین دلایا ہے جس کی وجہ سے ان کی کامیابی کے امکانات یقینی ہیں ۔

ضلع گھوٹگی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے سردارعلی گوہر مہربھی پیپلز پارٹی سے الگ ہو کرجی ڈی اے کا حصہ بن گئے ہیں ضلع دادو کے علاقے میہڑسے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے طلعت مہیسر پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں جس سے پی ٹی آئی کے امیدوار لیاقت جتوئی کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں عمران ظفر لغاری اور فیاض احمد بٹ کیلئے مسئلہ بڑھ گیا ہے۔

لاڑکانہ سے ٹکٹ نہ ملنے پر سابق ایم پی اے عزیز جتوئی ناراض ہیں ، پیپلز پارٹی نے تعلقہ ڈوکری کے اس علاقے کے این اے 201 پر جس شخص خورشید احمد جونیجوکو نامزد کیا ہے ان کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہیں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں انڑ گروپ نے اس تعلقہ سے پیپلز پارٹی کو شکست دی تھی اس با رانڑ گروپ کے امیدواروں کو اللہ بخش انڑاور عادل انڑ کو جی ڈی اے کی مکمل حمایت حاصل ہے اس غیر متوقع سیاسی صورت حال کی بدولت لاڑکانہ کے وہ حلقے بھی جو ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے لئے انتہائی محفوظ تصور کئے جاتے تھے وہاں پر بھی سخت مقابلے کا امکان پیدا ہو گیا ہے یہ سیاسی حالات بلاشبہ پی پی قیادت کے سیاسی مستقبل کیلئے خطرناک ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

peoples party ke hathon se sindh card phisalnay laga is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.