پیپلز پارٹی نے عمران خان کو کیسے گھیرا ؟

پاناما لیکس کے معاملے پر جب تک علیم خان کی آف شور کمپنیوں کا چرچا نہیں ہوا تھا تب تک عمران خان کا لب ولہجہ مختلف تھا اور وہ رائے ونڈ پردھرنا دینے کے لیے بے تاب ہور ہے تھے ۔ 24 اپریل کو انہوں نے رائے ونڈ جانے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن جب وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا

منگل 10 مئی 2016

Peoples Party ne Imran Khan Ko Kaise Ghera
سالک مجید :
پاناما لیکس کے معاملے پر جب تک علیم خان کی آف شور کمپنیوں کا چرچا نہیں ہوا تھا تب تک عمران خان کا لب ولہجہ مختلف تھا اور وہ رائے ونڈ پردھرنا دینے کے لیے بے تاب ہور ہے تھے ۔ 24 اپریل کو انہوں نے رائے ونڈ جانے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن جب وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ گیدڑ ببھکیوں سے نہیں ڈرتا تو اس کے بعد سے عمران خان کے رویے میں نمایاں تبدیلی نوٹ کی گئی ہے اس سے قبل لندن میں ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے گھر پر بھی مسلم لیگی کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ کر دیا تھا جس کے بعد یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ اگر عمران خان نے رائے ونڈ کا رخ کیا تو جمائما کے گھر پر بھی احتجاج کیا جائیگا۔

اس دھمکی کے بعد عمران خان خاموشی سے رائے ونڈ کا رستہ بھول گئے۔

(جاری ہے)

24 اپریل کی تاریخ گزر گئی پھریکم مئی کی تاریخ دی گئی اس پر بھی رائے ونڈ کی بجائے پی ٹی آئی نے سندھ کا رخ کر لیا اور کرپشن کے خلاف سندھ بھر میں احتجاجی مارچ شروع کر کے عوام میں شعور بیدار کرنے کا جواز پیش کیا گیا لیکن سندھ کے احتجاجی مارچ میں عمران خان نے خود قیادت نہیں کی بلکہ شاہ محمود قریشی کو بھیج دیا جنہوں نے پی ٹی آئی کے مارچ کو سولوفلائیٹ میں تبدیل کر دیا۔

سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ماضی میں پی ٹی آئی نے نواز شریف حکومت کے خلاف تنہا احتجاج کرنے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس مرتبہ کمائن اپوزیشن کے چکر میں پڑ گئے ہیں دراصل پیپلز پارٹ نے ان کو انگیج کر لیا ہے ایک طرف وہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں پی پی کے ساتھ مل کر احتجاجی حکمت عملی بنا رہے ہیں تو دوسر ی طرف وہ سندھ میں کرپشن کے خلاف احتجاجی مارچ بھی کر رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ خو د بھی کنفیوژ ہی اور عوام کو بھی واضح جواب نہیں دے پار ہی۔

بار بار پوچھا گیا کہ سندھ میں کس کی کرپشن کے خلاف پی ٹی آئی احتجاج کر ہی ہے تو صاف جواب نہیں دیا گیا اور یہ بھی نہیں کہا گیا کہ سندھ میں حکومت کے خلاف احتجاج کی جا رہا ہے یا کسی سیاسی جماع کے خلاف۔ پی ٹی آئی کئی معاملات پر کنفیوژ نظر آر ہی ہے پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما ایک پی اے سید حفیظ الدین بھی پارٹی چھوڑ گے ہیں اور انہوں نے مصطفی کمال کی پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے پی ٹی آئی کی مقبولیت اورلیڈر شپ کے حوالے سے رہنماوٴں اور کارکنوں کے تحفظات کا پول کھو دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے اندر اختلافات اور گروپنگ اب کسی سے ڈکھی چھپی نہیں رہی ۔سید حفیظ الدین سینئر سیاستدان اور قانون دان ہیں ایک زمانے تک وہ مخدوم جاوید ہاشمی کے گہرے دوست اور راز دان کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے جاوید ہاشمی نواز شریف سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی میں چلے گے تو سید حفیظ الدین بھی پی ٹی آئی میں آگے اور پھر سندھ اسمبلی کی نشست بھی جیت گے۔

نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سید حفیظ الدین لیاقت علی جتوئی کی صوبائی حکومت میں مشیر اطلاعات تھے۔ سید حفیظ الدین نے مشرف کے دور آمریت میں جاوید ہاشمی کا ڈٹ کر ساتھ دیا اور نواز شریف کے سپاہی بنے رہے اب جاوید ہاشمی بھی پی ٹی آئی میں نہیں رہے اور سید حفیظ الدین بھی پی ٹی آئی کو چھوڑ گے ہیں اور انہوں نے پارٹی چھوڑنے کی وجوہات بیان کی ہیں اوروہ خود عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماوں کے لیے غور طلب ہیں۔


سیدحفیظ الدین سے قبل پی ٹی آئی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار امجد اللہ خان نے بھی پی ٹی آئی کو چھوڑ کر ایم کیو ایم میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ یہ بھی پی ٹی آئی کے لیے بڑا دھچکہ تھا۔ اب لوگ سوچنے لگے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی سندھ میں مطلوب اہداف حاصل کرنے اور اپنے حامیوں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوتی جارہی ہے اس لیے پی ٹی آئی میں آنے والے لوگ اب واپس جا رہے ہیں یا چھوڑ چھوڑ کر دیگر جماعتوں میں جانے لگے ہیں آخر یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی ۔

اس کی ذمہ داری پارٹی کی مرکزی قیادت پر عائد ہوتی ہے یا سندھ اور کراچی میں پی ٹی آئی کی قیادت اس صورتحا کی ذمہ دار ہے۔ پارٹی عہدیداروں اور رہنماوں سمیت کارکنوں کو پارٹی کے بعض قائدین سے سخت شکایات ہیں گلے شکوے ہیں جن کا بارہا اظہار کپتان تک کیا جا چکا ہے پی ٹی آئی نے خود کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے پارٹی الیکشن کا عمل موخر کر دیا اور مختلف ونگز بحال کر دئیے ہیں۔


پاناما لیکس پر عمران خان اپوزیشن کو یکجا کر کے مشترکہ حکمت عملی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ڈیفنس سوسائٹی کے رہائشی افراد پر 9 مئی کو پاناما لیکس کی دوسری قسط میں مزید تفصیلات اور نام آنے کا خوف طار ی نظر آتا ہے سب کی نظریں 9مئی پر لگی ہوئی ہیں کہ اس مرتبہ کون کون سے نام منظر عام پر آتے ہیں۔
سندھ کی مخصوص سیاست کے حوالے سے لیاری گینگ وار کے اہم کردار عزیز بلوچ کے چونکا دینے والے انکشافات سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث ہیں لیکن200 کے لگ بھگ قتل کے واقعات کا اعتراف کر لینے سے قانونی حلقے سمجھتے ہیں کہ کیسز مضبوط نہیں ہوتے بلکہ کمزور ہوجاتے ہیں۔

ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے کئی جرائم پیشہ افراد کو پکڑا جنہوں نے سوسو افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا لیکن پھر عدالتوں میں ان الزامات کو ثابت کرنا آسان نہیں تھا۔ شواہد، گواہیاں اور ثبوت لانا بڑا چیلنج بن جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملزم کے خلاف کیسز کمزور ہوتے جاتے ہیں۔
عزیز بلوچ نے ارشد پپو سمیت دیگر کئی مخالفین اور دیگر لوگوں کے قتل کی بات کی ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالستار پٹیل سمیت دیگر نام بھی لیے ہیں اب ان سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے آنے والے دنون میں اس حوالے سے مزید انکشافات متوقع ہیں۔


سابق وفاقی مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم نے بھی بیرون ملک اپنی جائیداد اور اثاثے فروخت کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اس سلسلے میں انہوں نے اپنے بیٹے کو پاور آف اٹارنی بھی دے دیا ہے اور متحدہ عرب امارات کے قونصل خانے جا کر قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے کاغذات پر دستخط بھی کر دئیے ہیں۔
صولت مرزا کے بعد اب خالد شمیم کا بھی جیل سے ویڈیو بیان منظر عام پر آگیا ہے جس میں ڈاکٹر فاروق کے قتل اور مصطفی کمال کے حوالے سے اہم باتیں کی گئی ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اس معاملے کی انکوائری کا آرڈر کرد یا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی اس معاملے پر کئی قانونی اور سیاسی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔۔
بھارتی فلم ساز کبیر خان کی ایک پروگرام میں شرکت کے لیے کراچی آمد اور روانگی کے دوران اس کے خلاف سول سوسائٹی کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا کیونکہ اس نے پاکستان مخالف فلم بنائی تھی اور اسے ائیرپورٹ پر سخت ردعمل کا بھی سانا کرنا پڑا۔

اس کے باوجود کبیر خان ایک پروگرام کی دعوت پر پاکستان آیا اور لاہور کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی گھوما پھرا اور لوگوں سے ملا۔ صحافی چاند نواب سے مل کر اس نے خوشی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف پاکستانی اداکار ہدایت کار عاشر عظیم کی فلم ”مالک“ پر حکومتی پابندی نے بھی سیاسی اور شوبز حلقوں میں توجہ حاصل کی اور اس پر حمایت اور مخالفت میں بھی متضاد آراء سامنے آرہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Peoples Party ne Imran Khan Ko Kaise Ghera is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 May 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.